مذہبی اسکالر نے کہا کہ میں قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ کر اسلام کا داعی بن گیا
اسلام آباد:معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک 20 روزہ دورہ پاکستان کے لیے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ دراصل ڈاکٹر ذاکر نائیک پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر پاکستان پہنچے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا اسلام آباد پہنچنے پر شاندار استقبال کیا گیا۔ایئرپورٹ پر استقبال کے لیے وزارت مذہبی امور سید ڈاکٹر عطاالرحمان اور پارلیمانی سیکرٹری مذہبی امور شمشیر علی مزاری نے استقبال کیا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک اگلے 20 دن تک پاکستان میں مقیم ہوں گے۔ اس دوران وہ پاکستان کے شہر اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں پروگراموں سے خطاب کریں گے۔غور طلب ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک پیر کی صبح اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے شیڈول کے مطابق وہ 5 اور 6 اکتوبر کو کراچی، 12 سے 13 اکتوبر کو لاہور اور 19 سے 20 اکتوبر کو اسلام آباد میں پروگراموں سے خطاب کریں گے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے پاکستان آنے کا اعلان چند روز پہلے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے کیا تھا، جس میں انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی دعوت پر میں اور شیخ فارق نائیک پاکستان کا دورہ کریں گے۔دراصل ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ایک پاکستانی یوٹیوبر سے بات چیت میں پاکستان آنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ سال 2020 میں پاکستان جانے کا ارادہ کیا تھا لیکن کورونا وائرس کے باعث پلان منسوخ کرنا پڑا۔انٹرویو کے دوران ڈاکٹر ذاکر نائیک سے پوچھا گیا کہ وہ ملائیشیا کے بجائے پاکستان کیوں نہیں گئے؟ اس پر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا تھا کہ ان کے لیے پاکستان جانا آسان تھا، کیونکہ پڑوسی ملک میں لوگ انھیں جانتے اور پہچانتے ہیں۔پاکستان کے دورے پر آئے مذہبی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا ہے کہ قرآن کا ترجمہ پڑھ کر اسلام کا داعی بن گیا۔جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے گھر پر تقریب سے خطاب میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ میرے نزدیک سب سے اہم پیشہ ڈاکٹری کا تھا۔ہند نژاد داعی اسلام ان دنوں پاکستان کے دورہ پر ہیں،جہاں انہوں نے کہا کہ قرآن کا ترجمہ پڑھا تو معلوم ہوا، سب سے اہم کام دعوت کا ہے اور میں اسلام کا داعی بن گیا۔روزنامہ جنگ کی خبر کے مطابق مذہبی اسکالر نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی میری دیرینہ خواہش آج پوری ہوگئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کل کچھ دوست ملنے آئے میں نے کہا سب سے پہلے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ کئی لوگ ان کی دعوت سے ایمان کے نور سے منور ہوئے ہیں، عالم اسلام کے حسین چہرے سے دنیا کو روشناس کرانا اور امت مسلمہ کا اتحاد واتفاق مشترکہ ہدف ہے۔ ڈاکٹر ذاکرنائیک کے ہمراہ ان کے صاحبزادے طارق نائیک بھی تھے، مولانا فضل الرحمان نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی کاوشوں کو سراہا۔انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے معزز مہمان کو گلدستہ پیش کیا اور تحائف دیے جبکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے جے یو آئی سربراہ کو پرفیوم کا تحفہ دیا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے یہ بھی کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی امت مسلمہ کے اتحاد کی کاوشوں کو سراہتا ہوں۔اس دوران مولانا فضل الرحمان نے اظہار خیال کیا اور کہا کہ آپ نے ہمارے گھر آکر ہمارے گھر کو رونق بخشی، ڈاکٹر صاحب جیسے سوالات کا جواب دیتے ہیں وہ امت مسلمہ کی طرف سے دفاع ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کو اختلافات بھلا کر قرآن اور سنت کی روشنی میں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے مزید کہا کہ میرے تبلیغی کام کا مقصد دنیا میں اسلام کا امن اور محبت کے حقیقی پیغام اجاگر کرنا ہے۔مولانا فضل الرحمان نے یہ بھی کہا کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، اسلامی تعلیمات امن، رواداری اور محبت کا پیغام دیتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امت مسلمہ کو متحد ہونے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے کی ضرورت ہے، ڈاکٹر ذاکر نائیک کی اسلام کے امن و محبت کا پیغام عام کرنے میں کاوشیں قابل ستائش ہیں۔
اسلام آباد میں پاکستانی اینکرز سے گفتگو کرتے ہوئے فلسطین کی صورتحال پر مسلم دنیا کے اقدامات کے حوالے سے سوال پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ مسلمان ممالک کو نیٹو کی طرح کا اتحاد تشکیل دینا چاہیے۔ نیٹو کے 32 ممالک ہیں ، اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہو تو تمام ممالک پر حملہ تصور ہوتا ہے۔ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ 57 اسلامی ممالک کو بھی نیٹو کے اصولوں پر مبنی ایک اتحاد تشکیل دینا چاہیے۔ اس طرح مسلمان ممالک ذیادہ طاقت ور ہوں گے، لیکن افسوس کے مسلمان تقسیم کا شکار ہیں۔مسئلہ فلسطین کے حوالے سے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ اس پر مزید جواب دیتے ہوئے ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ہر مسلمان کم ازکم دعا تو ضرور کرسکتا ہے اور اس کے لیے بہترین وقت تہجدکا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں اس حوالے سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پرامن احتجاج کرنا چاہیے، احتجاج کافی مؤثر ہوتا ہے۔
ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ ہمیں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، اس کے علاوہ مسلمانوں کو انفرادی طور پر جتنا بھی ہوسکے فلسطینیوں کی مالی امداد کرنی چاہیے، چاہیے 100 روپے ہوں یا 1000 روپے، اللہ تعالیٰ نیت کو دیکھتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمات کرنے چاہئیں۔ مسلمانوں کے میڈیا کو چاہیے کہ فلسطین کے حوالے سے آواز بلند کرے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر مسلمان قرآن و سنت پر عمل کریں گے تو اللہ کی مدد اور زیادہ آئے گی۔ اس کے علاوہ اگر مسلمان اسلامی نظام نافذ کریں اور خلافت کا قیام کریں تو ان شاءاللہ اس طرح کے مسائل کبھی نہیں ہوں گے۔