نئی دہلی: ”ہریانہ میں پیدا ہونے والی فرقہ وارانہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔ عبادت گاہوں پر حملے اور بے گناہوں کو قتل اور زخمی کیا جارہا ہے۔ وہاں یہ صورت حال تب پیدا ہوئی جب وشو ہندو پریشد کا جلوس نکالا گیا تھا۔یہی جلوس’نوح‘ اور’سوہنا‘میں تشدد کا سبب بنا جس میں دو ہوم گارڈ اور ایک مسجد کے امام سمیت چھ لوگوں کی موت ہوگئی۔ حکومت کو جلد از جلد اس صورت حال پر قابو کرنا چاہئے اور اس کو یقینی بنانا چاہئے کہ تشدد کی یہ لہر دوسرے علاقوں میں نہ پھیلے“۔ یہ باتیں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر محمد سلیم نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ ” ہم فسادیوں اور سماج دشمن عناصر کی طرف سے انجام دیئے جانے والے تشدد کی سخت مذمت کرتے ہیں۔مبینہ طور پر جلوس میں ہتھیار تقسیم کئے گئے۔جبکہ کسی بھی مذہبی جلوس میں کھلے عام ہتھیاروں کی تقسیم ایک مجرمانہ عمل اور خود کشی کے مترادف ہے۔ ان واقعات سے پہلے سوشل میڈیا پر اشتعال دلانے والے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے ویڈیو چلائے جارہے تھے۔ پولیس اور انتظامیہ اگر بروقت اس کا نوٹس لیتی اور مجرموں کے خلاف بروقت کارروائی کرتی تو شاید یہ فسادات روکے جاسکتے تھے۔ اس طرح کے واقعات کا مقصد، فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے کر اور پولرائزیشن کی بیچ بو کر سیاسی فائدے حاصل کرنا ہوتا ہے۔ پروفیسر سلیم نے مولانا سعد کے لئے معاوضہ کا مطالبہ کیا۔ مولانا سعد سیکٹر 57 کی ایک مسجد میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔انہیں دیگر افراد سمیت فسادیوں نے قتل کردیا تھا۔ انہوں نے زخمی ہونے والوں کے لئے بھی معاوضے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس معاملے کی فوری طور پر تحقیقات کرائی جائیں۔ نیز ان پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہئے جو پیشگی اطلاع کے باوجود سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہے۔پروفیسر سلیم نے پولیس انتظامیہ کی جانب سے حقیقی مجرموں کو پکڑنے کی مخلصانہ کوششیں کرنے کے بجائے مسلم نوجوانوں کے ساتھ جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کی بھی مذمت کی۔ حکومت اور انتظامیہ کو چاہئے کہ بغیر کسی جانب داری کے مجرموں کی پہچان کر کے ان کو قرار واقعی سزا دلائے۔ انہوں نے کہا کہ آج جماعت اسلامی ہند کا ایک وفد حالات کا جائزہ لینے کے لئے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے گیا ہے۔