لکھنؤ: ملک ہندوستان کا آئین دنیا کا سب سے بہترین آئین ہے، جو اپنے ملک میں رہنے والے تمام ہی لوگوں کو اپنے مذہب پر مکمل طور پر عمل کرنے کی آزادی دیتا ہے۔دستور ہند صاف طور سے ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنے عقیدے اور اپنے طور طریقوں سے اس ملک میںزندگی گزاریں۔ آج کے پروگرام کا یہ بنیادی مقصد ہے کہ اگر آپ کو ہم سے کوئی شکایت ہے اور ہمیں آپ سے کوئی شکایت ہے تو اس شکایت کو اور غلط فہمی کو ہم یہیں پر دور کر لیں، تاکہ ہمارے بیچ پائی جانے والی دوری کا خاتمہ ممکن ہو، تبھی اس ملک اور سماج میں امن و انصاف کا قیام ممکن ہے۔
یہ باتیں مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے انسٹی ٹیوٹ فار سوشل ہارمونی اینڈ اپلفٹمنٹ کی جانب سے فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے اشتراک سے ”منشی نول کشور کے ذریعہ شروع کیا گیا اتحاد کا علمبردار اردو اخبار ’’اودہ اخبار‘‘ کی مناسبت سے منعقدہ پروگرام کے دوران کہیں۔ پروگرام کا مرکزی موضوع ’’صحت مند معاشرے کے قیام میں باہمی تعلقات کی اہمیت‘‘ تھا۔
امام عید گاہ مولانا خالد رشید نے کہا کہ اگر ہمارے اور آپ کے درمیان کچھ غلط فہمیاں ہیں تو اسے دور کرنا چاہیے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو اس بات سے واقف کرائیں کہ اس ملک کو سینچنے اور بنانے میں ہمارے آباء و اجداد نے بہت محنت کی ہے۔ بڑی قربانیوں کے بعد یہ آزاد ملک ہمیں نصیب ہوا ہے، جس میں امن و شانتی اور آپسی اتحاد بنا کر رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ مولانا نے مزید کہا کہ ہم لوگوں کو ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا چاہیے۔
منشی نول کشور کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ منشی نول کشور گنگا جمنی تہذیب کے علمبردارتھے۔ انہوں نے مختلف مذاہب کی کتابوں کو اپنے پریس میں بڑے ہی اہتمام سے شائع کروایا۔ ان کی جانب سے شروع کیا گیا اردو اخبار ملک کا پہلا قومی اردو اخبار قرار پایا۔
پروگرام کے مہمان خصو صی فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے چیئرمین اطہر صغیر (تورج زیدی) نے کہا کہ ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرنے کے لیے آپسی بھائی چارہ انتہائی ضروری ہے۔ اگر ملک کے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہیں کریں گے، آپسی تعاون و اتحاد کی بات نہیں کریں گے تو یہ بات ملک کی ترقی میں رکاوٹ ہوگی۔ آج کا یہ پروگرام اسی پیغام کو عام کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے ملیں جلیں، آپسی غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے ملک و سماج کی ترقی میں اپنا رول ادا کریں۔
پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ فار سوشل ہارمونی اینڈ اپلفٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر انیس انصاری نے کہا کہ اس ملک میں بھائی چارہ کی بات ہوتی ہے۔ لوگوں کو ایک دوسرے سے ملانے کی بات ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے ملتے بھی ہیں، لیکن لوگوں کے دل ایک دوسرے سے نہیں مل رہے ہیں۔ اس ملک کے آئین کی جو تمہید ہے وہ واضح کرتی ہے کہ ہم سب اس ملک کے باشندہ ہیں اور کوئی کسی سے بڑھ کر نہیں ہے، دستور کے سامنے سب ایک برابر ہیں۔
انیس انصاری نے کہا کہ ملک میں امن و شانتی اور آپسی اتحاد کو فروغ دینے کے لیے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ جو لوگ نفرت پھیلانے کا کام کر رہے ہیں تو ان کو کمزور کیا جائے۔ اگر سیاسی طور سے اور حکومتی طور سے نفرت کو بڑھاوا دینے کا کام کیا جا رہا ہے تو انصاف اور امن کے علمبردار اور پڑھے لکھے لوگوں کو سیاسی میدان میں آنا چاہیے۔
ایشو کے سکریٹری جنرل محمد خالد نے کہا کہ منشی نول کشور کی طرح ہمارے شہر میں اور بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں۔ جن کی زندگیاں ہمارے لیے عملی نمونہ ہیں۔ ایسی شخصیات پر بھی سیمینار اور پروگرام منعقد ہونا چاہیے۔ جن کی زندگیوں سے لوگوں کو امن و شانتی کا پیغام ملتا ہو۔
سابق آئی جی آفتاب احمد خان نے کہا کہ جہاں کہیں بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں، ان سب کے پیچھے کہ کہانی تقریباً ایک جیسی ہوتی ہے، فساد سے قبل تمام پہلوؤں پر ریسرچ اور سروے ہوتا ہے۔ باقاعدہ پیسے لیکر فساد کرائے جاتے ہیں۔ ہمارے مذہبی رہنماؤں کو ایک دوسرے سے ملاقات کرنی چاہیے۔ جب تک ہم ایک دوسرے سے ملیں گے نہیں اور آپس کی دیواروں کو توڑیں گے نہیں تب تک آپسی اتحاد اور صحتمند معاشرے کا قیام ممکن نہیں ہے۔ آج جو گفتگو اس ہال کے اندر ہورہی ہے یہ گفتگو باہر عوام کے درمیان بھی آنی چاہیے۔
پروگرام کے مہمان اعزازی پدم شری ڈاکٹر رنجیت بھارگو نے اپنے آڈیو پیغام کے ذریعہ سامعین سے مخاطب ہوئے۔ ان کے علاوہ پروگرام میں فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے سکریٹری ایس مناظر عادل حسن، ڈاکٹر ارشد اعظمی، ڈاکٹر ثروت تقی، دیوندر، دیپک کبیر، ڈاکٹر توقیر رضا، ڈاکٹر آصف علی، مسیح الدین خان مسیح، ہمایوں چودھری، عالمین انصاری، ایڈوکیٹ سہیل صدیقی، عبدالرو?ف وغیرہ نے بھی اہنے خیالات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر معید کے اظہار تشکر سے پروگرام کا اختتام ہوا۔