نئی دہلی(پریس ریلیز)سپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق چیف جسٹس اے ایم احمدی کی وفات پر آج انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیاگیا جس میں ملک کی سرکردہ شخصیات نے اظہار خیال کیا اور ان کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایاکہ ہندوستان ایک منصف ، ایماندار اور انسانیت کے خدمت گزار شخص سے محروم ہوگیا ہے جن کی کمی ہمیشہ محسوس ہوگی ۔آئی او ایس کے چیرمین ڈاکٹر منظور عالم سے مرحوم جسٹس احمد ی کے گہری تعلقات تھے لیکن اپنی شدید بیماری کی وجہ سے پروگرام میں شریک نہیں ہوسکے ۔ صدارت کا فریضہ آئی او ایس کے سکریٹری جنرل پروفیسر زیڈ ایم خان نے انجام دیا ۔اس موقع پر ان کے ساتھ کام کرنے والی دہلی ہائی کورٹ کی ریٹائرڈ جج جسٹس منجو گویل نے کہاکہ میں نے ان کے ساتھ چھ سال کام کیا وہ اپنے پیشہ میں بہت ایماندار اور وقت کے بیحد پابند تھے اور اپنے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔معروف ماہر قانون پروفیسر طاہر محمودنے کہاکہ جسٹس احمدی سے میرا ذاتی اور پرسنل تعلق تھا۔ مجھے بہت صدمہ ہے ان کے جانے کا ہر چند کہ سبھی کو اس دنیا سے جانا ہے ، میں ان کیلئے دعا گو ہوں، اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین۔
معروف دانشور وفیسر اختر الواسع چیرمین خسرو فائونڈیشن نے کہاکہ جسٹس احمدی صاحب اپنی خوبیوں اور خصوصیات کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ مجھے اس بات کی سعادت حاصل ہے کہ ان کو پہلا آئی او ایس لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا اور جب ساتواں ایوارڈ مجھے دیا گیا تو ان کے ہاتھوں سے ہی دیا گیا۔ بہت سارے مسلمان بڑے عہدوں پر پہونچنے کے بعد قوم اور ملت کی فکر نہیں کرتے ہیں لیکن جسٹس احمدی ہمیشہ ملت کیلئے فکر مند رہے اور ائی ایس ایس کے پروگرام میں بھی ہمیشہ شرکت کرتے تھے۔ جسٹس احمدی کی شکل میں ہم نے ایک اچھے شریف اور با مقصد زندگی گزارنے والی شخصیت کو کھودیا ہے۔پروفیسر اختر الواسع نے پروگرام میں ڈاکٹر منظور عالم کی کمی کو بھی محسوس کیا اور ان کی صحت یابی کیلئے دعاء کی اپیل کی ۔
سینئر صحافی سہیل انجم نے کہاکہ جس دن جسٹس احمدی کا انتقال ہوا اسی دن میں نے ایک مضمون لکھ دیا تاکہ اردو والوں کو ان کے بارے میں پتہ چل سکے۔ ان کی مقبولیت بہت زیادہ تھی۔حج کے دوران مجھے تین دنوں تک ان کے ساتھ بھی رہنے کا موقع ملا تھا ۔ سابق مرکزی وزیر اورسپریم کورٹ کے سینئر وکیل سلمان خورشیدنے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ جسٹس احمدی کا ہمارے درمیان سے جانا بہت بڑی کمی چھوڑ جاتا ہے ، ان سے میرے بڑے گہرے تعلقات تھے، ان کے سامنے مجھے بحث کرنے کا بھی موقع ملا تھا بہت توجہ کے ساتھ وہ کیسز کو سنتے تھے ،جونئیر وکیلوں کو بھی اہمیت دیتے تھے کسی کو نظر انداز نہیں کرتے تھے۔ لگاتار ان سے رابطہ رہا بہت کچھ ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ چیف جسٹس رہتے ہوئے جس طرح انہوں عدلیہ کا نظام سنبھالا وہ بھی قابلِ تعریف ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قوم و ملت کے دسیوں مسائل پر گفتگو اور مشورہ کا موقع ملا ۔تاریخ میں ہمیشہ ان کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ جب بھی نظر پڑتی تو کہتے گھر پر آؤ ساتھ بیٹھیں گے کچھ بات کریں گے۔ احمد اشفاق کریم راجیہ سبھا ایم پی اور الکریم یونیورسیٹی کے بانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ میں ان خوش نصیبوں میں ہوں جنہیں ان کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا ہے۔ کٹیہار میڈیکل کالج کا قیام ان کے انصاف پسند فیصلے کی وجہ سے ہوا تھا کیوںکہ انہوں نے حقیقت پر مبنی فیصلہ دیا تھا جس کی وجہ سے کٹیہار میڈیکل کالج اور دوسرے کالجز کے قیام کا راستہ ہموار ہوا۔ وہ صرف جج نہیں بلکہ منصف تھے، سادگی پسند اور خوش مزاج تھے۔ وہ ایک ایسی مایہ ناز شخصیت تھی جو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ رہے گی، ان کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اظہر حسین نے کہا کہ آئی او ایس کی جانب سے تعزیتی نشست کا انعقاد قابل تعریف قدم ہے۔ حاجی پرویز میاں صدر آل انڈیا ملی کونسل دہلی کہاکہ جسٹس احمدی نیک دل اور مخلص تھے اپنے منصفانہ فیصلوں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ان کے صاحبزادے ایڈووکیٹ حذیفہ احمدی نے کہاکہ میرے والد نے ہمیشہ اس بات کی تلقین کی آئین بہت جامع اور مستند ہے۔ محنت ضروری ہے۔ مرحوم جسٹس احمدی کی بیٹی ایڈووکیٹ تسنیم احمدی نے کہاکہ میرے والد بہت مضبوط، حوصلہ مند اور انصاف پسند تھے ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی اور اس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔
آئی او ایس کے سکریٹری جنرل پروفیسر زیڈ ایم خان نے کہا کہ وہ ایی او ایس سے وابستہ تھے، ان کا نظریہ تھا کہ اگر ملک کا ماحول خراب ہوتا ہے تو اس واضح طور پر اثر کا عدلیہ پر بھی پڑے گا، اسی طرح وہ قانون کے تئیں بیداری کو ترجیح دیتے تھے اور کہتے تھے کہ قانونِ کی جانکاری ہرکسی کو ضروری ہے۔وہ کہتے تھے کہ آپ مجھے یوز کرو مس یوز کرو لیکن ابیوز مت کرو۔مولانا انیس الرحمن قاسمی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل نے اپنے پیغام میں کہا کہ وہ اجتماعی قیادت کے قائل تھے ،انسانیت کی خدمت کی ہمیشہ بات کرتے تھے اور اس بات پر زور دیتے تھے کہ سبھی کو مشترکہ طور پر انسانی خدمت کو فروغ دینا چاہیے۔ مولانا عبد اللہ طارق صاحب نے دعا کرائی قبل ازیں مولانا عدنان کی تلاوت سے پروگرام کا آغاز ہوا۔پروفیسر افضل وانی نے نظامت کا فریضہ انجام دیا جبکہ پروفیسر حسینہ حاشیہ نے تمام مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا ۔تعزیتی اجلاس میں بڑی تعداد میں اہل علم ، دانشوران اور ان سے محبت کرنے والوں نے شرکت کی ۔پروگرام میں جسٹس احمد ی مرحوم پر ایک ڈوکومینٹری فلم بھی دکھائی گئی ۔