تہران: العربیہ کی رپورٹ کے مطابق ایرانی حکام نے مہسا امینی کے اہل خانہ کو ان کے آبائی شہرسقز میں واقع گھرمیں نظربند کردیا ہے۔
مہسا امینی کے ایک کزن عرفان مرتضائی نے العربیہ سے بات چیت میں ان کے اہل خانہ کی نظربندی کی کی تصدیق کی اور کہا کہ ’’ہم ایرانی حکام کو سکیورٹی فورسزکے ہاتھوں مہسا امینی کی ہلاکت کا ذمہ دار قراردیتے ہیں‘‘۔
سوشل میڈیا پرشیئرکی جانے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امینی کی پولیس حراست میں موت کے 40 دن مکمل ہونے کے موقع پربدھ کوان کے آبائی شہرسقز اور ایران کے دیگر حصوں میں مظاہرے کیے گئے۔
ایک عینی شاہد نے خبررساں ادارے رائٹرزکو بتایا کہ ایرانی سکیورٹی فورسز نے مبیّنہ طورپراس قبرستان میں جمع ہونے والے افراد پر فائرنگ کی جہاں مہسا امینی مدفون ہیں۔
ایران میں 16 ستمبرکو 22 سالہ مہسا امینی کی تہران میں اخلاقی پولیس کے زیرحراست ہلاکت کے بعد سے مظاہرے جاری ہیں اور یہ نظام مخالف مکمل احتجاجی تحریک میں تبدیل ہوچکے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں 200 سے زیادہ مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں اور ہزاروں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔مظاہرین کے ساتھ جھڑپوں میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
سکیورٹی فورسز نے ملک بھر سے سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔یہ مظاہرے 1979ءمیں برپاشدہ انقلاب کے بعد سے ایران کی مذہبی قیادت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔مظاہرین حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کررہے ہیں اور ایرانی حکام کے لیے سب سے زیادہ تشویش کا یہ پہلو ہے کہ اس احتجاجی تحریک میں خواتین پیش پیش ہیں اور وہ اپنے سرپوش ریلیوں میں سرعام اتار کراحتجاج کررہی ہیں۔