دمشق(ایجنسیاں) شام کے مشرقی صوبہ حماہ میں جمعرات کو ایران کی اتحادی ملیشیا کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کے نتیجے میں "متعدد ہلاکتیں” ہوئی ہیں۔
برطانیہ میں قائم شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق نے اسرائیل کو اس فضائی بمباری کا موردالزام ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیلی حملے میں ایران سے وابستہ ملیشیا کے اسلحہ اور گولہ بارود کے ٹھکانوں اور ڈپوؤں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس جنگی مانیٹر نے شام میں اپنے وسیع نیٹ ورک کے ذرائع کے حوالے سے حماہ میں متعدد دھماکوں کی اطلاع دی ہے جس کے نتیجے میں آگ بھڑک اٹھی اور متعدد افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ اس نے مزید کہا ہے کہ شامی فضائیہ کے ایک افسر کے لاپتا ہونے کی بھی اطلاع ہے۔
شام کی سرکاری خبررساں ایجنسی سانا نے کسی جانی نقصان کا ذکر کیے بغیرکہا کہ ہمارے فضائی دفاع کو فضا میں دشمن کے اہداف کا سامنا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے فوری طور پر اس حملے کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
واضح رہے کہ شام میں 2011ء میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد اسرائیل نے اپنے پڑوسی ملک میں سیکڑوں فضائی حملے کیے ہیں۔ان میں سرکاری فوجیوں کے ساتھ ساتھ صدر بشارالاسد کے اتحادی ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں اورلبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اگرچہ اسرائیل انفرادی حملوں پرشاذ و نادر ہی کوئی تبصرہ کرتا ہے لیکن اس نے ان میں سے سیکڑوں حملوں اور ان میں ایران کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کا اعتراف کیا ہے۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ایران کو صہیونی ریاست کی دہلیز پر قدم جمانے سے روکنے کے لیے اپنے دفاع میں یہ کارروائیاں کررہی ہے۔
قبل ازیں امریکی فوج نے جمعرات کویہ اطلاع دی تھی کہ اس نے شام میں گذشتہ 24 گھنٹے کے دوران میں ایران سے وابستہ مسلح گروہوں کے چار ارکان کو ہلاک کر دیا ہے۔اس نے شام میں راکٹ حملوں میں امریکی فوجیوں کے زخمی ہونے کے بعد یہ کارروائی کی ہے۔
دوسری جانب تہران نے بدھ کو شام میں امریکی حملوں کی زد میں آنے والےگروہوں کے ساتھ کسی بھی تعلق کی تردید کی تھی۔ایران شام میں باقاعدہ فوجی تعینات کرنے کی بھی تردید کرتاہے لیکن اس کاکہنا ہے کہ اس کی سپاہِ پاسداران انقلاب کے فوجی بشارالاسد کی حکومتی فورسز کے ساتھ ’’مشیر‘‘کے طور پر کام کرتے ہیں۔
یادرہے کہ شام میں ایک عشرے سے زیادہ عرصے قبل مسلح تنازع پرامن مظاہروں کے خلاف وحشیانہ جبر سے شروع ہوا تھااور پھرغیر ملکی طاقتوں نے مداخلت کی اورعالمی جہادیوں کی دراندازی کے بعد یہ طول پکڑ گیا۔اس جنگ میں قریباً پانچ لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ملک کی جنگ سے پہلے کی نصف آبادی اس وقت دربدر ہے۔ان میں لاکھوں اندرون ملک یا ہمسایہ ممالک میں ہنوزپناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔