علی گڑھ،: ’’سر سید احمد خاں کی خدمات اتنی عظیم ہیں جن پر ہمیشہ گفتگو ہوتی رہے گی اور رہنمائی حاصل کی جاتی رہے گی۔سر سید نے نہ تو کوئی کام وقتی کیا اور نہ ہی ان کی فکر محدود تھی۔ان کا نظریہ مثبت اور وسیع القلبی کا غماز تھا۔یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ ان کے کاموں اور ان کی فکر پر سیمینار،سمپوزیم ہوتے رہے ہیں جن میں سب سے زیادہ اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ سرسید احمد خاں کی عصری معنویت کیا ہے اور آج ہم ان سے کیسے روشنی حاصل کرسکتے ہیں‘‘۔وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے شعبہ اردو کے رشید احمد صدیقی آڈیٹوریم میں صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر اور ڈاکٹر آفتاب عالم نجمی کی مرتب کردہ کتاب ’’سرسید احمدخاں اور ان کی خدمات ‘‘ کا اجراء کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ سر سید ایک لامحدود فکر کا نام ہے،انہوں نے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے لئے نہ صرف سوچا بلکہ عملی سطح پراقدام بھی کئے جس کے نتیجے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسا مایہ ناز ادارہ وجود میں آیا جس نے ہندستان میں مسلمانوں کی علمی،معاشی،سماجی اور بشری ترقیات میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندستان کی دو سو سالہ تاریخ میں مسلمانوں میں سر سید احمد خاں جیسی کوئی ایسی شخصیت پیدا نہیں ہوئی جس کا دائرہ کار اس قدر وسیع رہا ہو اور اس کی فکر نے اتنا زیادہ ملک و قوم کو فائدہ پہنچایا ہو۔یہی وجہ ہے کہ ملک و بیرون ملک میں مستقل ان پر ریسرچ ہو رہی ہے اور ان کی زندگی کے نہ صرف نئے نئے گوشے سامنے آرہے ہیں بلکہ ان کی فکری وسعتوں کو بھی گرفت میں لاکر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پروفیسر طارق منصور نے کتاب اور اس کے مرتبین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب سے سر سید احمد خاں کی فکر و خدمات کے نئے گوشے سامنے آئے ہیں ۔اس میں ملک کے اہم اسکالروں اور دانشوروں کا قلمی تعاون ہے جس نے اس کتاب کو بہت مفید بنادیا ہے۔امید ہے کہ سر سید احمد خاں سے متعلق ریسرچ کرنے والوں کے لئے یہ کتاب بہت کار آمد ہوگی۔اس سے قبل صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے مہمان خصوصی وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کا استقبال کیااور سر سید سے متعلق کتاب کے اجراء پر شکریے کا بھی اظہار کیا۔ڈاکٹر معید رشیدی نے کتاب کا تفصیلی تعارف کراتے ہوئے کہ 400صفحات پر مشتمل اس کتاب میں چالیس سے زائد اسا تذۂ علم و ادب کے مضامین شامل ہیں،جن سے سرسید کی زندگی کے مختلف گوشے منور ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سر سید احمد خاں ایک لغت نویس بھی تھے ان کے اس علمی پہلو پر سابق صدر شعبہ پروفیسر ظفر احمد صدیقی کا بہت مدلل مضمون شامل کتاب ہے۔پروفیسر مولیٰ بخش کا مضمون ’’ادبی تھیوری کامحرک اول:سرسید احمد خاں‘‘ ایک نادر مضمون ہے ،جس میں اردو میں تھیوری کی تشکیل پر گفتگو کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ سر سید نے کس طرح اس میں نمایاں کردار اداکیا۔علی گڑھ تحریک کا دائرہ پورا ملک تھا۔ اس معاملے میں تمل ناڈو پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے اس حوالے سے پروفیسر قاضی حبیب کا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔پروفیسر یسین مظہر صدیقی کا مضمون شاہ عبد العزیز دہلوی اور سر سید: چند مباحث ‘ حد درجہ علمی مقالہ ہے۔معید رشیدی نے کہا کہ اس کتاب میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی،پروفیسر عقیل احمد صدیقی،پروفیسر محمد علی جوہر،پروفیسر سید محمد ہاشم،پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر آفتاب احمد آفاقی،مولانا عطاء الرحمان قاسمی،پروفیسر شبنم حمید شمس بدایونی،مظفر حسین سید ،سمیت دیگر مستند لوگوں علم کے مضامین شامل ہیںجن کے ذریعہ سر سید خاں کی حیات و خدمات کوسمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔پروفیسر سید سراج الدین اجملی نے سر سید احمد خاں کی عصری معنویت اور ملک و قوم کی ترقی میں ان کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جن پر اردو ،ہندی اور انگریزی میں لاتعداد کتابیں شائع ہوچکی ہیں،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مرکزی کتب خانہ میں الگ سے ایک سر سید سیکشن ہے اور ان کی علمی و ادبی خدمات کو منظر عام پر لانے کے لئے سر سید اکیڈمی بھی ہے جو سرسید احمد خاں کے حوالے سے کام کر رہی ہے ۔پروفیسر قمر الہدی فریدی نے کہا کہ شعبہ اردو روز اول سے سر سید احمد خاں کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مصروف ہے ،اس سے قبل بھی سر سید احمد خاں سے متعلق شعبہ اردو کے متعدد اساتذہ نے کثیر تعداد میں کتابیں تحریر کی ہیں،اب صدر شعبہ پروفیسر محمد علی جو ہر اور ڈاکٹر آفتاب عالم نجمی نے یہ کتاب ترتیب دی ہے جس کے لئے وہ لائق مبارک باد ہیں۔