ممبئی ، 18 نومبر ( یو این آئی ) مہاراشٹر کی قانون ساز اسمبلی کی تمام 288 نشستوں کے لیے 20 نومبر ہونے والی رائے شماری کے لیے کی جا رہی انتخابی تشہری مہم آج 5 بجے اختتام کو پہنچ گئی۔ 23 نومبر کو رائے شماری ہوگہ۔ حکمراں مہایوتی اتحاد اور اپوزیشن مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) دونوں ہی انتخابات میں جیت کو یقینی بنانے کے لیے ووٹروں کو راغب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔اس دوان تمام جماعتیں اور آزاد امیدوار رائے دہندگان کو اپنی حمایت اور تائید کرنے پر راضی کرنے کے لیے پوری طرح سے اپنا زور لگانے کے بعد اب 23 نومبر پر نظریں جمائے ہوئے ہیں کہ عوام انکی محنت کا ثمر انھیں کس شکل میں دیتے ہیں۔
مہاراشٹرا کے انتخابی دنگل میں دو بڑے اتحاد موجود ہیں ، مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) جس میں ادھو بالا صاحب ٹھاکرے کی قیادت میں شیو سینا (ادھو ٹھاکرے)، شرد پوار کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد پوار)، اور انڈین نیشنل کانگریس شامل ہیں۔ اور مہایوتی اتحاد، جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، شیوسینا (ایکناتھ شندے) اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (اجیت پوار) شامل ہیں۔
مہاراشٹر اسمبلی الیکشن 2024 میں مہاراشٹر میں، 30 اکتوبر کو اپ ڈیٹ کردہ انتخابی فہرستوں کے مطابق، ریاست میں 97025119 ووٹر ہیں، جن میں 50022739 مرد ، 44996279 خواتین ، اور 6101 تیسرےفریق (ٹرانس جینڈر) ووٹر شامل ہیں۔ نیز 6.4 لاکھ (معذور) اور 1.16 لاکھ ملازمت کرنے والے ووٹرس ہیں۔
مہاراشٹر انتخابات 2024کے لیے پولنگ باڈی کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق کل 288 اسمبلی سیٹوں کے لیے 4140 امیدوار میدان میں ہیں۔ ضلع نندربار کی شہادہ سیٹ پر سب سے کم صرف تین امیدوار ہیں ، جبکہ ناندیڑ شمالی میں سب سے زیادہ۔33 امیدوار ہیں ۔
مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) اور مہایوتی اتحاد ان دو بڑے حریف گروپوں کے علاوہ انتخابی میدان میں سماج وادی پارٹی کے جس کی مہاراشٹر میں قیادت ابو عاصم اعظمی کے ہاتوں میں ہے،نیز پرکاش امیڈکر کی ونچت بہو جن اگھاڑی اور اسی طرح آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین و دیگر پارٹیاں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بے شمار آزاد امیدوار بھی اپنی قسمت آزمانے یا بقول سیانوں کے دوسروں کی قسمت چمکانے کے لیے میدان میں ہیں۔
اس دوران نریندر مودی ، راہل گاندھی، پرینکا گاندھی، یوگی ادتیہ ناتھ، اسدالدیںن اویسی ، راجناتھ سنگھ، ،اکھلیش یادو ،ملکارجن کھڑگے، جے پی نڈا، سچن پائلٹ، پی چدمیر کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر کے سیاسی لیڈران کے انتخابی جلسے منعقد ہوئے۔خوش آئین بات یہ ہے کہ ،مہاراشٹر میں انتخابی تشہیر کے دوران ، چھوتے موٹے واقعات کو چھوڑ کر کوئی بھی بڑا سانحہ یا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ تاہم امیدواروں اور ان کے قائدین نے تشہر کے دوران ، اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے اور انھیں ہرانے کے لیے نہ صرف طعن و تشنیع نشانہ بنایا بلکہ ایک دورسرے کے خلاف بھبتیاں کسی اور شدید ہدفِ تنقید بھی بنایا۔ایک دوسرے کو مختلف چیلینج بھی دیے گئے۔امت شاہ نے راہل گاندھی، ساورکر اور بال ٹھاکرے کی تعریف کرنے کا چیلنج دیا جس کے جواب میں بی جے پی پر چھترپتی شیواجی مہاراج کی توہین کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ مودی اور امت شاہ کو یہ اعلان کرنا چاہئے کہ وہ ایک کھلے پلیٹ فارم سے ذات کے لحاظ سے مردم شماری کرائیں گے اور 50 فیصد کی حد کو ہٹا دیں گے۔
2019 کے اسمبلی انتخابات کے برعکس مہاراشٹر میں اس الیکشن میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اس میں بڑی علاقائی پارٹیوں شیوسینا اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) دو گروپوں میں تقسیم ہے اور دونوں گروپ ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں۔ ادھو ٹھاکرے کا گروپ(شیو سینا- یو بی ٹی) اپنے دیرینہ حلیف بی جے پی کے خلاف لڑ رہا ہے۔ 2019 کے اسمبلی انتخابات میں، بی جے پی نے 105 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، شیوسینا نے 56 اور کانگریس نے 44 سیٹیں جیتی تھیں، 2014 میں بی جے پی نے 122، شیوسینا نے 63 اور کانگریس نے 42 سیٹیں جیتی تھیں۔
اسمبلی انتخابات 2024 کے سلسلے میں 15 اکتوبر کو ریاست میں انتخابی اخلاق نافذ کیا گیا تھا۔ دریں اثنا، چیف الیکٹورل آفیسر کے دفتر نے کہا کہ سی-وِجل اپپ پر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی 1648 شکایات موصول ہوئی تھیں، جن میں سے 1646 کو الیکشن کمیشن نے حل کر دیا۔مہاراشٹر میں الیکشن کے دوران علمائے کرام کے الگ الگ گروپوں کےذریعے امیدواروں اور پارٹیوں کے حق میں اپیل کے نتیجے میں تنازعہ پیدا انتشار پیدا ہوا۔ مولانا سجاد نعمانی کے بیانات پر بی جے پی نے الیکشن کمیشن میں شکایت درج کروائی۔ہندوستان کے مشہور عالم دین اور مسلم پرسنل لابوڈ کے رکن مولانا سجاد نعمانی نے مہارشٹر کے 288 امیدواروں میں سے 269 امیدواروں کو اپنی حمایت (اپنی ذاتی رائے کےبطور) کا اعلان کیا ۔انھوں نے پورے مہاراشٹر میں صرف 23 مسلم امیدواروں کا انتخاب کیا اور باقی جن دوسرے غیر مسلم امیدواروں تائید و حمایت کا اعلان کیا ان میں 170 مراٹھا اور او بی سی ، 53 پسماندہ طبقات اور 40دیگر امیدوار شامل ہیں۔ یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس کے لیے انھوں نے صرف کسی پارٹی مخصوص کی یا کسی اتحاد کی حمایت نہیں کی۔ انھوں نے بشمول آزاد امیدوار ، کئی پارٹیوں کے امیدواروں کو الگ الگ جگہ پرحمایت دی ہے، انکی فہرست میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور دوسری کئی پارٹیوں کے امیدوار بھی شامل ہیں۔ جس پر بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا نے ان پر اشتعال انگیزی ،ووٹ جہاد اور مسلم بی جے پی لیڈروں اور ورکرس کے بائیکاٹ کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔