نئی دہلی13 مارچ (یو این آئی)ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام دنیا کی عظیم ترین جشن ادب کے دوران آج میر تقی میر کی سہ صدسالہ یوم پیدائش کے موقع پر دو روزہ قومی سمینار کا انعقاد کیا گیا افتتاحی اجلاس کی صدارت اکادمی کے صدر مادھو کوشک نے کی۔ انھوں نے کہا کہ آج عام ہندستانی جس طرح سوچتا ہے یا یوں کہیں کہ ہم جس گنگاجمنی تہذیب کی بات کرتے ہیں وہ میر کی شاعری سے آئی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا آج ہندی شاعری میں جو بھی لکھا جارہا ہے وہ میر کی دین ہے۔ فلمی نغمہ نگار جناب گلزار نے بحیثیت مہمانِ اعزازی شرکت کرتے ہوئے کہا کہ اردو کا چسکا اُنھیں ایسے پروگراموں میں کھینچ لاتا ہے۔ انھوں نے میر کی خصوصیت اور لب و لہجے کے حوالے سے بات کی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میر عام زندگی کی حقیقت کو سامنے رکھ کر شعر کہتے تھے۔
دوسرے مہمانِ اعزازی سید شاہد مہدی نے کہا کہ میر کے کلام میں ان کی شخصیت جھلکتی ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ میر کو اگر قبول کریں تو مکمل طور پر کریں اُن کی اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ کریں۔ اجلاس میں مہمان خصوصی کے طور پر تشریف فرما پروفیسر سید احتشام حسنین نے میر کے حوالے سے پروفیسر گوپی چند نارنگ کی مشہور انگریزی کتاب The Hidden Garden کا حوالہ دیا اور کہا کہ میر کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب بہت ضروری ہے۔ انھوں نے میر کے چند شعر پیش کر ان کی شاعری کی پوشیدہ نکات پر روشنی ڈالی۔ اردو مشاورتی بورڈ کے کنوینر ممتاز شاعر چندربھان خیال نے ابتدائی کلمات پیش کیے۔ انھوں نے کہا کہ میر تقی میر نے تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن اصل میدان غزل ہے۔ وہ اردو زبان کے ایسے عظیم شاعر ہیں جنھوں نے ہر دور میں اہلِ فن اور اہلِ فکر و دانش سے خراجِ عقیدت حاصل کیا ہے۔ ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کئی نئے پرانے شعرا نے کی لیکن کوئی بھی اس منفرد شاعر کی انفرادیت کو چھو نہ سکا۔ میر تو کیا کوئی میر جیسا بھی نہ بن سکا۔
کلیدی خطبہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر احمد محفوظ نے پیش کیا۔ انھوں نے اپنے پرمغز خطبے میں کہا کہ میر کی عظمت کا اعتراف غالب اور ان کے معاصرین نے بھی کیا ہے۔ انھوں نے محمد حسین آزاد کے حوالے سے میر کی شاعری پر تفصیلی گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ آزاد کے بیان کی وجہ سے ہی میر کو جدید عہد میں محض سادہ اور سلیس شاعر سمجھنے کا گمراہ کن تصور پیدا ہوا۔ میر کی شاعری تہ داری اور پرکاری کی مثال ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ میر کو شگفتگی، بہار عیش و نشاط اور کامیابی وصال کا لطف کبھی نصیب نہیں ہوا۔ انھوں نے جو مصیبتیں برداشت کیں اور جو درد و غم جھیلے، وہ ان کی شاعری میں صاف جھلکتے ہیں۔
سمینار کے پہلے تکنیکی اجلاس کی صدارت ممتاز دانشور و نقاد پروفیسر شافع قدوائی نے کی۔ اس اجلاس میں تین مقالے پیش کیے گئے۔ پہلا مقالہ ڈاکٹر ثروت خاں نے ’کیا جوں کر گیا شعور سے وہ‘ کے عنوان سے پیش کیا، دوسرا مقالہ حقانی القاسمی نے ’میگنومینیا اور میر تقی میر‘ کے عنوان سے جبکہ تیسرا مقالہ پروفیسر کوثر مظہری نے ’جمیل جالبی کے میر صاحب‘ کے عنوان سے پیش کیا۔ آج کے دوسرے تکنیکی اجلاس کی صدارت ممتاز شاعر شین کاف نظام نے کی جس میں ممتاز ہندی ادیب لیلادھر منڈلوئی نے ’یاد اُس کی اتنی خوب‘ کے عنوان سے جبکہ ڈاکٹر جانکی پرساد شرما نے ’میر کے ہندی سے رشتے‘ عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ سمینار میں سامعین کی بھرپور شرکت رہی۔
سمینار کا افتتاح مہمانوں کے ہاتھوں شمع افروزی سے ہوا۔ اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر کے شری نواس راؤ نے سبھی مندوبین و شرکا کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہر زبان کا اپنا ایک مخصوص مقام ہوتا ہے۔ اردو کا مقام ادبی دنیا میں ہمیشہ سے خاص رہا ہے۔ انھوں نے محفل میں مو جود گلزار کو حال ہی میں گیان پیٹھ ایوارڈ ملنے پر مبارکباد دی۔