رجب طیب اردگان نے سلامتی کونسل کو 5 ممالک کی سیاسی حکمت عملیوں کا میدان جنگ بھی قراردیا
یویارک (یو این آئی) ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان نے اقوام متحدہ میں پاکستان اور ہندوستان کو مذاکرات کی تجویز پیش کی ہے، ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں علاقائی امن و استحکام اور خوش حالی کے لیے کشمیر میں امن ناگزیر ہے۔ تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اٹھتر ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مذاکرات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان میں بات چیت سے کشمیر میں دیرپا امن لایا جا سکتا ہے، رجب طیب اردگان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے سے علاقائی استحکام پیدا ہوگا، پاکستان اور ہندوستان بات چیت سے مسئلہ کشمیر حل کریں، ترکیہ اس سمت میں اٹھائے جانے والے اقدامات کی حمایت جاری رکھے گا۔ادھر نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے نیویارک میں ایشیا سوسائٹی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے پرامن مذاکرات کی حمایت کرتا ہے۔
اسی کے ساتھ اردگان نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ہال میں 78ویں جنرل اسمبلی سے خطاب کہا کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل اب عالمی سلامتی کی ضامن نہیں بنی بلکہ 5 ممالک کی سیاسی حکمت عملیوں کا میدان جنگ بن چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ ترکیہ بھی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے اس بیان سے اتفاق کرتا ہے کہ "دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والے ادارے آج کی دنیا کی عکاسی نہیں کرتےہیں”۔
انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل اب عالمی سلامتی کی ضامن نہیں رہی، یہ 5 ممالک کی سیاسی حکمت عملیوں کا میدان جنگ بن چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قیادت میں دنیا کی سلامتی، امن اور فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے ذمہ دار اداروں کی تیزی سے تنظیم نو کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک عالمی طرز حکمرانی کا ڈھانچہ بنانا چاہیے جو اپنے جغرافیہ اور آبادی کے ساتھ دنیا کے تمام ماخذات، عقائد اور ثقافتوں کی نمائندگی کرنے کے قابل ہو۔صدر ایردوان نے فروری 2022 سے جاری روس یوکرائن جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے ایردوان نے کہا کہ ترکیہ، یوکرین کی آزادی اور علاقائی سالمیت کی بنیاد پر سفارت کاری اور بات چیت کے ذریعے اس کے خاتمے کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کرتا رہے گا۔صدر ایردوان نے اس بات پر زور دیا کہ شام کی علاقائی سالمیت اور سیاسی اتحاد کے لیے سب سے بڑا خطرہ دہشت گرد تنظیموں کو دی جانے والی کھلی حمایت ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ان لوگوں کی منافقت سے تھک چکے ہیں جو شام اور عراق، مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ میں داعش اور اس جیسے گروہوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ایردوان نے کہا کہ وہ ممالک جو دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ صرف اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے لیے کام کرتے رہتے ہیں انہیں دہشت گردی اور اس سے متعلقہ مسائل کے بارے میں شکایت کرنے کا حق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں مستقل امن صرف فلسطین اسرائیل مسئلہ کے حتمی حل سے ہی ممکن ہے۔ ایردوان نے کہاکہ اسرائیل کے لیے 1967 کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد اور جغرافیائی طور پر مربوط فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر وہ امن اور سلامتی حاصل کرنا مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری کسی پر نظر نہیں ہے، اور ہم کسی کو اپنے حقوق کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ ایردوان نے عالمی برادری کو شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کو تسلیم کرنے اور اس ملک کے ساتھ سفارتی، سیاسی اور اقتصادی تعلقات قائم کرنے کی دعوت دی۔انہوں نے یورپی یونین میں ترکیہ کی رکنیت کے حوالے سے صدر ایردوان نے کہا کہ یورپی یونین سے ہماری توقع یہ ہے کہ وہ ہمارے ملک کے تئیں اپنی ذمہ داریاں جلد پوری کرے، اور ترکیہ کے ساتھ متضاد رویوں کو ختم کرے۔صدر ایردوان نے آذربائیجان اور آرمینیا کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے شروع سے ہی دونوں ممالک کے درمیان مذاکراتی عمل کی حمایت کی لیکن آرمینیا اس تاریخی موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکا ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں آرمینیا سے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی توقع ہے ، خاص طور پر زنگیزور کوریڈور کے افتتاح کے موقع پر کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ قارا باغ آذربائیجان کا علاقہ ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور حیثیت کا نفاذ کبھی بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔