شعبۂ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی، وارانسی کے علاوہ شعبۂ اُردو خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں اُردو کے ممتاز ادیب کے انتقال کے حوالے سے تعزیتی جلسے کاانعقاد
وارانسی(پریس ریلیز)پروفیسرابن کنول شرافت اورانسانی قدرکے امین تھے۔ کلاسیکی ادب بالخصوص داستان کا انھوں نے بڑی باریکی سے مطالعہ کیا تھا۔ انھوں نے ایک مدت تک شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی میں بطور استاد اپنی خدمات انجام دیں اور سینکڑوں طلبہ و طالبات کی ذہنی و فکری تربیت کی۔وہ بیک وقت عمدہ افسانہ نگار، محقق، نقاد اور بہترین ڈرامہ نگار و اداکار تھے۔ ان کی نثر کی شگفتگی اور طبیعت کی بذلہ سنجی ان کے خاکوں اور انشائیوں میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔وہ اعتدال اور توازن کے زندہ مثال تھے۔ ادبی اور علمی اختلافات کو کبھی بھی ذاتی اختلاف سے خلط ملط نہیں کرتے۔ان کی تخلیقی توانائی کا اظہار افسانوں، خاکوںاورانشائیوں کی صورت میں ہوا ہے گوکہ وہ شاعری کا بھی عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ ان خیالات کااظہارآج شعبۂ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی، وارانسی میں پروفیسرابن کنول کے سانحۂ ارتحال پر تعزیتی جلسے میں صدرشعبہ پروفیسرآفتاب احمدآفاقی نے کیا۔
اس موقع پرپروفیسرآفاقی نے کہا کہ پروفیسرابن کنول نہ صرف بہترین عالم تھے بلکہ بہت اچھے مقرر اور مربی بھی تھے۔ان کی آواز میں ایک خاص قسم کی بلند آہنگی اور گھن گرج تھی۔ ان کے انتقال سے اردو شعر وادب ہی نہیںفنون لطیفہ بلکہ انسانیت کا بھی بہت بڑا خسارہ ہوا ہے۔اس موقع پر ڈاکٹرمشرف علی نے پروفیسرابن کنول کی شخصیت اور ان کی علمی و ادبی خدمات پر روشنی ڈالی اوران سے اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ پروفیسرابن کنول کی موجودگی میں کسی قسم کی اکتاہٹ یا بوریت کا احساس نہیں ہوتا تھا وہ ہمہ وقت اپنی زندہ دلی سے محفل کو زعفران زار رکھتے تھے۔
ڈاکٹر رشی کمار شرما نے پروفیسرابن کنول کی مشہور کتاب’ داستان سے ناول تک‘ کی روشنی میں ان کے فکر وفن کا تجزیہ کیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ڈاکٹر احسان حسن نے مرحوم کی ادبی و اکادمی زندگی اوران کے ساتھ اپنی یادیںتازہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ ملاقات کا تذکرہ کیا۔
ڈاکٹرمحمدقاسم انصاری نے پروفیسرابن کنول سے اپنے ذاتی اور گھریلو تعلقات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے جیسی شخصیات اردو کی ادبی دنیا میں کم ہیں۔ڈاکٹرمحمدافضل مصباحی نے اپنے استاد اور نگرانِ مقالہ پروفیسرابن کنول کا بہت ہی پرسوز انداز میں تذکرہ کیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی درخواست کی۔تعزیتی نشست کے آغاز میںڈاکٹر عبدالسمیع نے پروفیسر ابن کنول کی تعلیمی ، تدریسی اور ادبی خدمات کا تعارف پیش کیا اور ان کی دیگر اکادمی و ادبی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔
انھوں نے پروفیسرابن کنول کی شخصیت اور کارناموں کا تفصیلی تعارف پیش کرتے ہوئے ان کی مختلف کتابوں بالخصوص داستان سے ناول تک، کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی، بوستان خیال،تیسری دنیا کے لوگ، پچاس افسانے وغیرہ پرروشنی ڈالی۔ اس موقع پر شعبۂ اردو کے اساتذہ ، ریسرچ اسکالر کے علاوہ بڑی تعدادمیں طلبا و طالبات شریک ہوئے اور پروفیسر ابن کنول کے لیے دعائے مغفرت کی۔ نظامت کا فریضہ اور شکریے کی رسم ڈاکٹر عبدالسمیع نے ادا کی۔ دعائے مغفرت کے ساتھ نشست کا اختتام ہوا۔
دوسری جانب شعبہ اردو خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی میں پروفیسر ابن کنول کی رحلت پر تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ جس کی صدارت صدر شعبہ اُردو پروفیسر فخر عالم نے کی۔ ڈین فیکلٹی آف آرٹس اور صدر شعبہ عربی پروفسیر مسعود عالم فلاحی نے پروفیسر ابن کنول کی علمی و ادبی کمالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر ابن کنول صاحب (ناصر محمود کمال) ممتاز افسانہ نگار سابق صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کا انتقال اردو ادب کے لئے بہت بڑا خلا ہے وہ تقریباً بیس کتابوں کے مصنف تھے تخلیقی کاوشوں میں شاہکار افسانے، خاکے، انشائیے، ڈرامے اور سفرنامہ وغیرہ قابلِ رشک تصنیف ہیں تنقید میں بھی کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔ اِن کی نگرانی میں پچاس سے زائد طلبہ و طالبات نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے تحریر کیے ان کی رحلت ادبی دنیا میں غم کا موجزن بن گئی ہے۔ وہ تقریباً پانچ دہائیوں سے اردو زبان و ادب کے فروغ میں ہمہ تن مصروف تھے چنانچہ مختلف اصناف میں متعدد تحقیقی، تنقیدی۔علمی و ادبی مضامین قلم بند کر چکے تھے ان کے افسانے قارئین کو بہت نفع بخش ہو رہے ہیں وہ اپنے عادات و اطوار سے بالکل سادہ مزاج تھے، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ اس طرح کے آدمی میسر ہوں جو اتنے بڑے ہوکر بھی لوگوں کے سامنے کبھی بھی اپنے علم کو ظاہر نہیں کیا بلکہ اپنی سادگی کا ہر جگہ نام دیا ہے۔ ایک پروگرام میں میں ان کے ساتھ تھا، وہ داستان کی جمالیات پر گفتگو کر رہے تھے تو اسی میں بات آئی باغ و بہار کی اسی وقت ہم نے کہا کہ اس میں تو شاہوں اور بڑے لوگوں کی صرف باتیں ہوئیں ہیں غریبوں کو اور لاچاروں کا کوئی ذکر نہیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں ہم نے اس پر کھل کر تنقید کی ہے اور ہم نے اس پر ایک موضوع کے مطابق اس کو اسی انداز سے تنقیدی نقطہ نظر سے اس کو بہترین کڑی میں پرویا ہے۔ اللہ ابن کنول مرحوم کی مغفرت فرمائے درجات کو بلند فرمائے اعلی علین میں مقامِ کریم عطا فرمائے خصوصی طور پر ان کے تلامذہ اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
اس موقع پر پروفیسر ثوبان سعید نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر ابن کنول کا اس یونیورسٹی سے بہت خاص اور دیرینہ تعلق رہا ہے۔ متعدد سیمینار، مذاکرات اور خطبات میں انھوں نے شرکت فرمائی تھی۔ داستان کی جمالیات پر ایک یادگار خطبہ دیا تھا۔ ابھی گذشتہ دنوں اودھ رتن ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کے لیے وہ لکھنؤ آئے تھے تو یونیورسٹی کے طلبہ سے بھی خطاب کیا تھا۔ درحقیقت ابن کنول صاحب ہمیشہ طلبہ کی بہتری اور ذہن سازی کے لیے فکرمند رہتے تھے اور اس فکر کا اظہار ایسے شگفتہ انداز میں کرتے تھے جہاں ان کے خلوص کی گرمی محسوس کی جاسکتی تھی۔ ان کی تحریروں سے بھی یہی خلوص مترشح ہوتا تھا۔ مخلص تو وہ سدا کے تھے۔
ابن کنول کے جانے کا انداز بھی نرالا نکلا، اتنی خاموشی سے بھی کوئی جاتا ہے کہ جانے کا یقین ہی نہ آئے۔ اب یادوں اور دلچسپ گفتگووں کا ایک سلسلہ باقی رہ گیا ہے باقی اللہ بس باقی ہوس!
ڈاکٹر جمال رضوی نے کہا پروفیسر ابن کنول کا اچانک انتقال اردو دنیا کے لیے انتہائی افسوس ناک ہے۔ انھوں نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کئی سطحوں پر کام کیا۔ اردو کے ممتاز ناقدین نے پروفیسر ابن کنول کے مطالعہ ادب کو معتبر و مستند قرار دیا۔ اردو کے داستانوی ادب پر ان کی تحقیق اور تنقید نے داستانوں کی مقبولیت و معنویت کو نئے جہات عطا کئے۔ ایک معزز استاذ کی حیثیت سے انھوں نے طلبہ کے درمیان اپنی شناخت قائم کی۔ ادھر کئی برسوں سے تخلیقی ادب کی طرف ان کی فعالیت خاصی بڑھ گئی تھی اور ان کی تخلیق کرہ کئی بہترین اور معیاری کتابوں کو اردو حلقہ میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اردو زبان و ادب کے لئے ان کی خدمات ہمیشہ یاد کی جائیں گی۔
پروفیسر ابن کنول کے شاگرد ڈاکٹر محمد اکمل نے پروفیسر مرحوم کا ذکر کرتے ہوئے جذباتی ہو گئے اور کہا پروفیسر ابن کنول ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، ملک و بیرون ملک اردو کی علمی و ادبی حلقوں میں بے پناہ مقبولیت رکھتے تھے، ابن کنول صاحب ایک خوش مزاج، بذلہ سنج اور سدا بہار شخصیت کے مالک انسان تھے۔ آپ بہترین انسان، بہترین استاد کے ساتھ ساتھ بہترین مربی بھی تھے، آپ نے مجھے ایک شاگرد ہی نہیں بلکہ ایک بیٹے کی طرح عزیز رکھا، آپ کی تربیت اور محبتوں و شفقتوں کے زیر سایہ میں پلا بڑھا اور اس لائق ہوا۔ اچانک اس دنیا سے کوچ کر جانا پوری اردو دنیا بالخصوص میرے لئے بہت بڑا خسارہ ہے، ابن کنول صاحب جب کبھی لکھنؤ تشریف لاتے تو میرے غریب خانے پر ضرور تشریف لاتے اور ایک سرپرست کی طرح میری بیوی اور بچوں سے باتیں کرتے، سب سے ان کی خیریت دریافت کرتے، پروفیسر ابن کنول صاحب کے رحلت فرما جانے کی وجہ سے مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کہ میں ایک بار پھر یتیم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور اہل خانہ و جملہ متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹر اعظم انصاری نے کہا کہ پروفیسر ابن کنول صاحب کے انتقال پر ملال کی خبر سن کر یقین نہیں ہو رہا تھا لیکن حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے۔وہ دار فانی سے دا ر ہے حقیقی کا سفر کرکے مالک حقیقی سے جا ملے۔ان کے دنیاسے جانے سے اردو زبان ادب کا بہت بڑا خسا رہ ہوا ہے۔آج ہم اردو کے ایک مشفق استاد اور صاحب قلم سے محروم ہو گئے ہیں۔مالک ان کی مغفرت کرے اور انھیں جنت میں بلند مقام عطا کرے۔
ڈاکٹر ظفرالنقی نے کہا شعبہ اردو، خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں ابھی چند روز قبل ہی پروفیسر ابن کنول سے ملاقات ہوئی تھی۔ اچانک ان کے انتقال کی خبر سن کر دل پر ایک غم کی کیفیت طاری ہو گئی۔ پروفیسر ابن کنول ایک خوش مراج اور زندہ دل انسان تھے۔ انھوں نے اپنے تنقیدی اور تحقیقی کتابوں اور نگارشات کے ذریعے اردو ادب میں ایک نئی روش قائم کی۔ خاص طور پر داستانی ادب کی تفہیم و تحسین میں ان کی کتابیں اور تحریریں اردو ادب کے قاری کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہیں۔ یقیناً ان کے اچانک دنیا سے چلے جانے سے ایک ایسا ادبی خلا پیدا ہو گیا ہے جس کا پُر ہونا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرورت ہے۔ اللہ ان کے درجات کو بلند فرمائے۔
ڈاکٹر منور حسین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جے۔ این۔ یو۔ میں ریسرچ کے دوران گاہِ گاہِ مختلف پروگراموں اور سیمناروں میں ان سے ملاقات ہوتی رہی۔ اپنے طلبا سے محبت اور اخلاص کا برتاو ان کی شخصیت کا خاصہ ہے ان سے مستفیض ہونے کا موقع ناچیز کو بھی ملا علم و ادب کی دنیا میں وہ ایک قدآور شخصیت کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ انشائیہ نگاری میں اپنی مثال آپ تھے وہ اپنے انشائیوں میں معاصر عہد کے سلگتے ہوئے مسائل کو شگفتہ اور بامعنی نثر میں قاری تک پہنچانے میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کا اچانک انتقال ادب کی دنیا کا بڑا خسارہ ہے۔ اللہ ان کی آخرت کی منزلوں کو آسان اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔
تعزیتی نشست کے آخر میں صدر شعبہ اردو پروفیسر فخر عالم نے ابن کنول صاحب کی ناگہانی رحلت کا ذکر کرتے ہوئے ان کی مغفرت کے لئے دعائیں کیں اور کہا کہ –
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
پروفیسر ابن کنول کی شکل میں ایک مادی وجود کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک علمی و ادبی اور اخلاقی شخص عالم فانی سے دنیائے جاودانی کی طرف رحلت کر گیا، آپ ایک سنگ تراش وآہنگ گدازشاعر، ایک دیدہ ور نقاد، ایک معتبر افسانہ نگار اور ایک مستند محقق کی حیثیت سے نہ صرف یہ کہ ہندوستان میں بلکہ پوری اردو دنیا میں متعارف تھے، زندگی کے آخری لمحے تک انتہائی صحت مند، متحرک اور فعال تھے۔ ان کے طالب علموں کی ایک بڑی تعداد ہے جو دنیا بھر میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا ان کے شاگردوں پر سورج غروب نہیں ہوتا۔ بعض شاگردوں کی تربیت انہوں نے اس طرح ڈوب کر کی ہے کہ ان کے شاگردوں کو دیکھ کر خود مرحوم کی شخصیت کا گمان گزرتا ہے اور کبھی کبھی من تو شدم تو من شدی کا۔ شعبہ اردو بالخصوص اور بالعموم پوری اردو دنیا ان کے مرگ ناگہانی سے ایک ناقابل تلافی صدمے سے دوچار ہے۔ ہمارے شعبے نے ایک ادیب کو ہی نہیں کھویا بلکہ ایک محسن اور سرپرست سے بھی محروم ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے اور متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
تعزیتی نشست میں ڈاٹر عبد الحفیظ اور جناب رضوان خاں کے علاوہ دیگر شعبوں کے اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی۔