وارثی برادرس اور معصوم منور نے ناظرین کو محظوظ کرایا
نئی دہلی : محکمۂ فن ،ثقافت و السنہ حکومتِ دہلی اردو اکادمی ،دہلی کے زیر اہتما م سندر نرسری کے ایمپی تھیٹر میں ایک شاندار ’’محفل قوالی‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ اردو اکاد می، دہلی کے زیر اہتمام دہلی کے مختلف علاقوں میں اس قسم کے پرو گرام منعقد کرتی رہتی ہے، لیکن اس محفل قوالی کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ سندر نرسری جیسے تاریخی سیرگاہ میں منعقدکیا گیا۔ دوسری خصوصیت یہ تھی کہ معروف مؤرخ سہیل ہاشمی نے قوالی کی تاریخ سے سامعین کو رو برو کرایا ۔ قوالی کی شروعات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قول ہم سبھی جانتے ہیں اسی سے قوالی نکلی ہے ۔ صوفیوں کی محفلوں میں اس کا رواج بہت پہلے پاچکا تھا البتہ ہندوستان میں خواجہ قطب الدین بختیاری کاکیؒ کے یہاں سب سے پہلی روایت ملتی ہے جہاں سب سے پہلے ’ من کنت مولیٰ‘ پیش کیا گیا ۔ اس کے بعد یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اس میں پنجابی اثرات داخل ہوگئے تھے ۔ قوالی میں حضرت امیر خسرو کا کلیدی کردار نظرآتا ہے انہوں نے اس زمانے میں مروجہ زبانوں کے ساتھ ساز آہنگ کی اپنی ایجاد سے اسے اس میں چارچاند لگادیے ۔ اس کے بعد محفل سماع بہت ہی زیادہ مقبول ہوا جہاں صرف معرفتی و منقبتی کلام پیش کیے جاتے تھے ۔ قوالی کی سحر انگیزی واثرانگر یزی کی کہانیا ں ہیں جسے اس مختصر سے وقت میں پیش کرنا مشکل ہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی مقبولیت میں کبھی بھی کمی نہیں آئی اور اب پوری دنیا اس کی دلدادہ ہے ۔ ‘ ‘
سہیل ہاشمی کی گفتگو کے بعد وارثی برادرس ( حیدرآباد) نے اپنے فن کا مظاہر ہ شروع کیا تو اتفاق سے انہوں نے بھی پہلی قوالی’’ من کنت مولیٰ ‘ ‘ ہی پیش کی ، اس کے بعد ’ بے خود کیے جاتے ہیں انداز حجابانہ‘ ، ’ کب تک میرے مولیٰ‘ ،’ چھاپ تلک سب چھین لی رے مو سے نینا ملاے کے ‘ اور دیگر مشہور قوالیاں گائیں ۔ اس کے بعد قوالی کی دوسری محفل ممبئی کے مشہورو معروف قوال منور معصوم کے لیے سجتی ہے ۔ منور معصوم کیلاش کھیر کے ساتھ کوک اسٹوڈیو میں بھی اپنا فن پیش کرچکے ہیں ۔ ان کی قوالی کی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے مشہور و معروف کلام کی پیش کش میں خود کو نہیں ڈھالا ، بلکہ اپنے لیے الگ راہ اپنا کر ،نادر ونایاب کلام کو پیش کرنا اپنی خصوصیت بنائی ۔ بسم اللہ کے مکھڑے پر مشتمل انہوںنے پہلی قوالی پیش کی اس کے بعد اردو زبان پر چند اشعار بغیر ساز کے پیش کیا ، پھر ’ کبھی ا ے حقیقت منتظر نظر آلباس مجاز میں ‘‘ کو تضمین کے ساتھ پیش کیا ۔اس کے بعد’ حق حسن محبت کا ادا کون کرے گا ‘،’ دشمن کو میرے رکھنا سلامت ‘ و دیگر کئی سنجیدہ قوالیاں پیش کیں جسے وہاں موجود سنجیدہ سامعین نے بہت زیادہ سراہا ۔
اس موقع پرسکریٹری اردو اکادمی محمد احسن عابد اور گورننگ کونسل کے ممبران ڈاکٹر شبانہ نذیر، داکٹر عارف ،علیم الدین اسعدی ،محسن الحق ، محمد مزمل اور محمد حسیب نے اردو اکادمی کا مومنٹو پیش کرکے سبھی فنکاروں کا شکریہ ادا کیا ۔ پورے پروگرام میں نظامت کے فرائض ڈاکٹر جاوید حسن نے بخوبی ادا کیا ۔ پر وگرام میں شہر کے معززین کے ساتھ دور داز سے بغرض پکنک و تفریح تشریف لانے والے خواتین و حضرات نے بھی اس محفل قوالی کا لطف لیا ۔