سہارنپور (یو این آئی) کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا جمعہ کو سہارنپور شہر میں نہ تو عوامی حمایت حاصل کر سکی اور نہ ہی پہلے سے طے شدہ راستے سے منزل تک پہنچ سکی۔
سہارنپور ضلع میں کانگریس کی کمزور تنظیم کو دیکھ کر کانگریس لیڈر اور سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید نے اعلان کیا کہ پارٹی کے سابق صدر راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا اب سہارنپور سے نہیں گزرے گی۔ مسٹر خورشید اچانک سہارنپور پہنچ گئے اور یہاں کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد اعلان کیا کہ مسٹر گاندھی کی یاترا اب غازی آباد، باغپت اور مغربی اتر پردیش کے شاملی سے ہوتے ہوئے ہریانہ کے لیے روانہ ہوگی۔ اس کی وجہ سے سہارنپور ضلع کے لوگوں میں مسٹر گاندھی کی یاترا میں شامل ہونے کی خواہش دل میں ہی رہ گئی۔آج سابق وزیر نسیم الدین صدیقی کی قیادت میں شہر کے کھیمکا سدن سے دوپہر میں شروع ہونے والی کانگریسیوں کی پیدل یاترا حمایت حاصل نہیں کر سکی۔ یاترا کو پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق تین اسمبلی حلقوں سے گزرنا تھا اور پچیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد نانگل پر اختتام پذیر ہونا تھا۔کانگریس کے ضلع صدر چودھری مظفر علی تومر نے کہا کہ ضلع انتظامیہ نے دیر رات تک بھی کانگریس کی پیدل یاترا کو نکالنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ ضلع انتظامیہ نے صبح 10-11 بجے اجازت دی، لیکن یاترا کے راستے کو مختصر کرتے ہوئے اسے شہر کے وشوکرما چوک تک جانے کی اجازت دی۔
دراصل ضلع کے بزرگ مسلم لیڈر عمران مسعود کے کانگریس چھوڑنے کے بعد اس ضلع میں کانگریس کی حالت قابل رحم ہوگئی ہے۔ پارٹی ہائی کمان نے اس مسلم اکثریتی علاقے میں کانگریس کو مضبوط کرنے کی ذمہ داری سابق بی ایس پی لیڈر نسیم الدین صدیقی کو دی ہے۔ وہ ایک دن پہلے سہارنپور آئے تھے، لیکن وہ نہ تو پارٹی کارکنوں کو جوش دلا سکے اور نہ ہی لوگوں کی حمایت حاصل کر سکے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسٹر گاندھی سہارنپور سے کنارہ کش ہو گئے۔
آج کی پیدل یاترا میں کانگریس کے ریاستی سکریٹری پروین چودھری، ریاستی جنرل سکریٹری سنجیو شرما، سکریٹری گورو بھاٹی، سابق وزرا ستیش شرما، گنیش دت شرما، سٹی صدر ورون شرما، اوما بھوشن، دھرم ویر جین، رام نریش شرما سمیت صرف چند سو لوگوں نے شرکت کی۔ یاترا کے اختتام پر مسٹر صدیقی نے کہا کہ مسٹر گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کا مقصد لوگوں میں آپسی بھائی چارہ، محبت، ہم آہنگی وغیرہ قائم کرنا ہے۔
دیگر مقررین نے کہا کہ مرکز کی مودی حکومت ملک کے آئینی ڈھانچے کو تباہ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ جمہوریت، بولنے اور لکھنے کی آزادی کو سلب کیا جا رہا ہے۔ عوام اور نوجوان مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان ہیں۔