غزہ: حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت اسرائیل نے اپنی قید سے ایسے فلسطینیوں کو بھی رہا کیا ہے جن کا تعلق غزہ سے نہیں جہاں حماس کی حکومت ہے بلکہ وہ مغربی کنارے میں رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مغربی کنارے سے تعلق رکھنے والے 39 فلسطینی قیدیوں کو اسرائیل نے رہا کیا تو پھر اس علاقے میں جشن کا سا سماں پیدا ہو گیا۔ ان کے گھروں کے باہر چند حماس کے جھنڈوں کے علاوہ فلسطینی جھنڈے بھی لہراتے نظر آئے۔ اسرائیل کی قید سے رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کے خاندان مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنے پیاروں کی واپسی کا جشن منا رہے ہیں، جو یہاں کے رہائشی فلسطینیوں کے لیے ایک نئی بات ہے۔

اسرائیل کی طرف سے سکیورٹی کے نام پر اس علاقے کے شہریوں کی گرفتاریوں کو یہاں کی مقامی آبادی اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے پر قبضہ جمانے کے حربے قرار دیتے ہیں۔ ان قیدیوں پر قتل اور پُرتشدد حملوں سے لے کر اسرائیلیوں پر پتھر پھینکنے تک کے مقدمات درج ہیں۔ متعدد فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کی کوششوں کو مجرمانہ رنگ دینے کی کوشش کرتا آ رہا ہے۔ مغربی کنارے کی ایک چوتھائی آبادی اسرائیل کی جیلوں میں رہ چکی ہے۔ اس اعتبار سے یہاں کے لوگ اسرائیلی جیلوں سے خوب واقفیت رکھتے ہیں۔

فلسطین کے قیدیوں سے متعلق کلب (پی پی سی) کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے سات اکتوبر سے لے کر اب تک تقریباً 900 بچوں سمیت 3000 سے زیادہ قید کیے ہیں۔ان کے مطابق ان قیدیوں کی اکثریت کو بغیر کسی فرد جرم کے انتظامی بنیادوں پر قید میں رکھا گیا۔ کلب کے مطابق ان قیدیوں کی اکثریت نہ تو کسی سیاسی یا عسکری گروپ کا حصہ ہے۔
سات اکتوبر کے بعد سے ان قیدیوں سے ان کے قریبی رشتہ داروں اور وکلا کو بھی ملنے تک نہیں دیا گیا۔ اس عرصے میں دوران قید چھ قیدیوں کی ہلاکت بھی ہوئی۔ کلب نے اسرائیل پر اپنے نظام انصاف کو انتقامی پالیسی کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔یہاں اسرائیل کی فوجی عدالتوں پر لوگوں کا اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان فوجی عدالتوں پر انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ’مغربی کنارے میں 99 فیصد شہریوں کو غلط سزائیں سنائی ہیں۔‘

اسرائیل کی طرف سے 39 فلسطینی خواتین اور کم عمر قیدیوں کی رہائی قیدیوں کے اس سمندر کا محض ایک قطرہ ہے۔ یہ رہائی البتہ یہ ضرور ظاہر کرتی ہے کہ کیسے کبھی کبھار فلسطینی اسرائیل کو اپنی مرضی کے اقدامات کرنے پر مجبور کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ فلسطین کے ایک سینیئر سیاستدان مصطفیٰ برغوتی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے میں فلسطینوں کی رہائی اہم حصہ تھا جبکہ یہی بات بتاتی ہے کہ کیوں یہ معاہدہ فلسطینیوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔‘

ان کے مطابق ’اسرائیل کی طرف سے دعوؤں کے باوجود اس معاہدے کو اس طرف ایک اشارہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اب مکمل جنگ بندی بھی ممکن ہو سکے گی۔‘
خیال رہے کہ اسرائیل نے یہ کہا ہے کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد حماس کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رکھے گا۔ ڈاکٹر برغوتی کے مطابق اسرائیل اس سے قبل بھی بہت کچھ کہہ چکا ہے۔ ان کے مطابق ’وہ کہتے تھے کہ وہ حماس کا خاتمہ کر دیں گے مگر اب وہ حماس کے ساتھ مذاکرات بھی کر رہے ہیں۔‘

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کا حماس کے خاتمے اور حماس کی قید میں یرغمالیوں کی رہائی کے اہداف میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے۔ تاہم اسرائیل کی فوج میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ یہ معاہدہ حماس کو نئے سرے سے متحد ہونے کا موقع فراہم کرے گا۔اس معاہدے سے مغربی کنارے میں حماس کے سیاسی قد و کاٹھ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہاں بیتونیا چیک پوائنٹ پر جو لوگ رہا ہو کر آنے والے فلسطینیوں کے استقبال کے لیے کھڑے ہیں وہ اس کا سہرا حماس کو دیتے ہیں۔یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ یہ سب فلسطینیوں کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔ حنان برغوتی نے رہا ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس سرزمین کے مالک ہیں۔ وہ دہشت گرد ہیں۔ انھوں نے ہماری زمین ہتھیائی ہوئی ہے۔ انھوں نے ہمیں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ اس چیز نے ہمارے اندر مزاحمت کا جذبہ پیدا کر دیا ہے۔ جب ہمارے بچے بڑے ہوں گے تو وہ بھی مزاحمت کریں گے۔ ’ابھی جو بچے پیدا نہیں بھی ہوئے ہیں وہ بھی حماس کا حصہ ہوں گے چاہے اسرائیل اسے پسند کرے یہ نہ کرے۔‘