سرسید کی شاہ کار تصنیف ’’تبیین الکلام‘‘ ان کی حمیت دینی کا آئینہ دار ہے: پروفیسر قدوائی
علی گڑھ: شعبۂ عربی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے استاد پروفیسر ابوسفیان اصلاحی کی دس کتابوں کا ایک پروقار تقریب میں اجراء عمل میں آیا۔
شعبہ عربی کے کانفرنس ہال میں منعقدہ علمی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے صدر جلسہ پروفیسر آزرمی دخت صفوی نے پروفیسر اصلاحی کی جہد مسلسل اور عمل پیہم کی ستائش کی اور علی گڑھ کی شخصیات سے متعلق ان کی نگارشات کو آئندہ نسل کے لیے قیمتی دستاویز قرار دیا۔پروفیسر عارف نذیر، ڈین، فیکلٹی آف آرٹس نے پروفیسر اصلاحی کی ستائش کی اور سنسکرت کے مختلف اشلوکوں کے ذریعہ واضح کیا کہ زندگی کو بامقصد بنانا اور خیر کے کاموں کے لیے وقف کرنا دانش مندی کی علامت ہے۔سابق صدر شعبہ عربی، پروفیسرسید کفیل احمد قاسمی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر اصلاحی کا دماغ روشن اور قلم سیال ہے۔ سحر خیزی ان کی عادت ہے۔ پروفیسر اصلاحی اپنا تن من اور دھن لگاکر اپنی تصانیف کو شائع کرتے ہیں اوربڑے اہتمام سے اس کے اجراء کی تقریب منعقد کرتے ہیں جو لائق ستائش اور قابل تقلید ہے۔اس موقع پر یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے اساتذۂ علم وفن نے پروفیسر اصلاحی کی تصانیف کے مالہ وماعلیہ کا جائزہ پیش کیا۔
پروفیسر عبد الرحیم قدوائی نے ’’تبیین الکلام‘‘ کی اہمیت وافادیت پر تفصیلی گفتگو کی اور ان وجوہات پر بھی روشنی ڈالی جن کی وجہ سے اس کتاب کا خاطر خواہ مطالعہ اب تک پیش نہیں ہوسکا۔انھوں نے اسے سرسید کی حمیت دینی کا آئینہ دار قرار دیا۔پروفیسر قدوائی نے اس بات کو یونیورسٹی کے لیے لائق صد افتخار گردانا کہ اس کے ایک فرزند کو پڑوسی ملک میں عزت ووقار کا مقام حاصل ہے اور اسے مختلف مناسبتوں سے وہاں خطبات کے لیے مدعو کیا جاتا ہے اور اہم کاموں کی تکمیل کے لیے ان سے رجوع کیا جاتا ہے۔
پروفیسر صلاح الدین عمری نے ’’تاملات فی افکار السیر سید‘‘ کا تعارف پیش کیا۔ واضح رہے کہ اس کتاب کی ترتیب میںپروفیسراصلاحی کے شاگرد ابوسعد اعظمی بھی ان کے شریک رہے ہیں۔انھوں نے پروفیسر اصلاحی کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ سرسید سے متعلق اس سے قبل بھی عربی زبان میں مختلف کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور شعبۂ عربی سے شائع ہونے والے مجلہ ’’المجمع العلمی العربی الہندی‘‘ نے بھی ۲۰۱۷ء میں ایک وقیع مجموعہ سرسید کی حیات وخدمات سے متعلق شائع کیا ہے۔ انھوں نے پروفیسر اصلاحی کے اسلوب اور انداز بیان کی ستائش کی۔
ڈاکٹر راحت ابرار نے ’’خطوط ذاکر‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ ذاکر علی خاں کی حیات وخدمات کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں پروفیسر اصلاحی کو وہی مقام حاصل ہے جو سرسید کے باب میں مولانا الطاف حسین حالی کا ہے۔ انھوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ۲۰۰۰۸ء میں سب سے پہلا سرسید ایوارڈ ذاکر علی خاں کو دیا گیا تھا۔ آپ نے ان کی تصنیف ’’روایات علی گڑھ ‘‘کا بھی ذکر کیا اور حاضرین کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ اسے یونیورسٹی کے نصاب کا جزء ہونا چاہیے۔پروفیسر غضنفر علی نے’’اوراقِ علی گڑھ‘‘ کا خوبصورت تجزیہ پیش کیا۔ ان کی گفتگو سے زبان وبیان پر ان کی غیر معمولی گرفت کا اندازہ ہورہا تھا۔انھوں نے شخصیات علی گڑھ سے متعلق اس کتاب کو ایک اہم دستاویز قرار دیا اور پروفیسر اصلاحی کے اسلوب نگارش کی ستائش کی۔انھوں نے واضح کیا کہ آواز دوست، جواب دوست، لوح ایام،یاد ایام، روایات علی گڑھ اور دھوپ چھاؤں کی شکل میںاس کتاب میں علی گڑھ کی تہذیب وثقافت کی عکاسی اس کے ہر صفحہ پر موجود ہے۔
پروفیسر صغیر افراہیم نے’’دانشور پروفیسر شروانی‘‘ کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہاکہ پروفیسر شروانی کے جن نقوش کو انھوں نے مختلف لوگوں کی زبانی سنا تھا اس کو بہت خوبصورت انداز میں پروفیسر اصلاحی کے یہاں موجود پایا۔ حبیب گنج سے حبیب منزل تک کی داستان کو جس خوبصورتی سے پروفیسر اصلاحی نے پیش کیا ہے وہ لائق ستائش ہے ۔
پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی نے ’’تصاویر علی گڑھ‘‘ پر اظہار خیال کیا۔ یہ کتاب بھی علی گڑھ سے متعلق متعدد شخصیات کا احاطہ کرتی ہے۔ پروفیسر صدیقی نے کتاب کے مشمولات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا اور اسے علی گڑھ کی تاریخ کا ایک اہم باب قرار دیا۔ انھوں نے پروفیسر اصلاحی کی علمی متانت اور انتظامی صلاحیتوں کی بھی تحسین کی ۔پروفیسر عبید اللہ فہد فلاحی نے ’’فضلاء مدرسۃ الاصلاح کی قرآنی خدمات‘‘ کا تعارف پیش کیا۔ انھوں نے بعض تسامحات کی نشاندہی کرتے ہوئے آئندہ ایڈیشن میں مبالغہ آرائی سے بچنے پر زور دیا۔ قرآن وحدیث کا جو تعلق ہے اور فہم قرآن کے باب میں حدیث کا جو مقام ہے انھوں نے اس کی طرف بھی مصنف کی توجہ مبذول کرائی۔
پروفیسر عبد العظیم اصلاحی نے ’’عبد الرحمن ناصر اصلاحی جامعی-شخص وشخصیت‘‘ کا تعارف پیش کیااور ان کی زندگی کے بعض روشن نقوش کا ذکر کیا۔پروفیسر ضیاء الدین ملک فلاحی نے ’’مکاتیب مشاہیر ومکاتیب ناصر‘‘ کا تفصیلی جائزہ پیش کیا اور حواشی میں در آئے بعض تسامحات کی نشاندہی کی۔
پروفیسر ثناء اللہ ندوی صدر شعبۂ عربی نے پروفیسر اصلاحی کی ان تصانیف کو شعبۂ عربی کی زریں تاریخ کا تسلسل قرار دیا۔ انھوں نے شعبۂ عربی کی زریں تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عبد العزیز میمن کا خصوصی ذکر کیا جنھیں عرب وعجم میں یکساں مقبولیت اور زبان وادب کا گہرا علم حاصل تھا۔متعدد مقررین نے بیک وقت دس کتابوں کے اجراء پر پروفیسر اصلاحی کو خصوصی مبارکباد پیش کی ۔ شعبۂ عربی کے استاذ ڈاکٹر عرفات ظفر نے پروگرام کی نظامت کے فرائض انجام دیے ، جب کہ پروفیسر تسنیم کوثر نے کلمات تشکر ادا کئے۔