نئی دہلی(ایجنسیاں):ترکی نے سویڈن میں ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک کے نسخے کو نذرآتش کرنے کے واقعے پر سخت تنقید کی ہے اور اسے ’قابل نفرت فعل‘ قرار دیا ہے۔ترکی نے کہا کہ سویڈش حکومت کا احتجاج کی اجازت دینے کا فیصلہ ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ ہے۔دراصل ترکی اور سویڈن کے درمیان سفارتی سطح پر تنازع مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ترکی نے سویڈن سے احتجاج ختم کرنے کی درخواست کرتے ہوئے سویڈن کے وزیر دفاع پال جانسن کا دورہ ترکی منسوخ کر دیا ہے۔ جبکہ ترکی کا کہنا ہے کہ یہ دورہ اب ’اپنی اہمیت اور معنی کھو چکا ہے۔‘دوسری طرف پال جانسن کا کہنا ہے کہ ’کل میں نے ترک وزیر دفاع ہولوسی آکار سے جرمنی کے شہر رامسٹین میں امریکی فوجی اڈے پر ملاقات کی۔ ہم نے انقرہ میں ہونے والی ملاقات کو فی الحال ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
ادھراسلامی تعاون تنظیم اور رابطہ عالم اسلامی نے سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں حکام کی اجازت سے قرآن کریم کے نسخے کو نذر آتش کئے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔
اسلامی تعاون تنظیم کے سکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہ نے آج اتوار کو کہا کہ انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں کی جانب سے سویڈن کے حکام کی اجازت سے قرآن پاک کے نسخے کی بے حرمتی کرنا قابل مذمت ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ یہ اشتعال انگیز عمل ہے ۔ یہ انتہا پسند عناصر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں ، ان کی مقدس اقدار کی توہین کرتے ہیں۔ یہ ایک اور مثال ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامو فوبیا، نفرت، عدم رواداری اور زینو فوبیا کس خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں۔اسلامی تعاون تنظیم کے سکریٹری جنرل نے سویڈش حکام پر زور دیا کہ وہ اس نفرت انگیز جرم کے مرتکب افراد کے خلاف ضروری اقدامات کریں۔رابطہ عالم اسلامی نے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ یہ وحشیانہ عمل مسلمانوں کو ان کے عقیدے کے ساتھ ایمان میں اضافہ ہی کریں گے۔رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے نفرت کو ہوا دینے اور مذہبی جذبات کو بھڑکانے والے طریقوں کے خطرے سے خبردار کیا اور کہا کہ اس طرح کے لاپرواہ رویے سے دیگر جرائم کے علاوہ آزادیوں کے تصور اور ان کی انسانی اقدار کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
سویڈن نیٹو کے فوجی اتحاد میں شامل ہونا چاہتا ہے اور نیٹو کا رکن ترکی اس کے خلاف ہے۔نیٹو کا رکن ہونے کی وجہ سے وہ کسی دوسرے ملک کے اس اتحاد میں شامل ہونے پر اعتراض کر سکتا ہے اور اسے روک سکتا ہے۔روس یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد سویڈن اور فن لینڈ نے نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست دی تھی۔ اسی وجہ سے سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں دائیں بازو کے کارکن ترکی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ان مظاہروں کے دوران انتہائی دائیں بازو کی سٹرام کرس پارٹی کے رہنما راسموس پالوڈان نے سنیچر کے روز سٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے باہر قرآن مجید کا ایک نسخہ نذر آتش کر دیا۔پالوڈن نے گذشتہ سال بھی ریلیاں نکالی تھیں جس میں انھوں نے قرآن جلانے کی دھمکی دی تھی جس کے بعد مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔سویڈن کے وزیراعظم الف کرسٹرسن نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’اظہار رائے کی آزادی جمہوریت کا بنیادی حصہ ہے لیکن جو قانونی ہے ضروری نہیں کہ وہ مناسب بھی ہو۔ بہت سے لوگوں کے لیے مقدس کتابوں کو جلانا انتہائی بے حرمتی ہے۔‘
انھوں نے لکھا ’میں ان تمام مسلمانوں کے لیے اپنی ہمدردی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جنھیں آج سٹاک ہوم میں ہونے والے واقعے سے تکلیف پہنچی ہے۔‘
سویڈن کے وزیر خارجہ ٹوبیاس بلسٹروم نے بھی اس واقعے کو ’ہولناک‘ قرار دیا۔ انھوں نے ٹویٹر پر لکھا کہ ’سویڈن میں اظہار رائے کی آزادی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں کی حکومت یا میں مظاہرے میں اظہار خیال کی حمایت کریں۔‘
سٹاک ہوم میں ترکی کی حمایت اور مخالفت میں الگ الگ احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
گذشتہ ہفتے سٹاک ہوم میں مظاہرین نے صدر اردوغان کا پتلا ایک لیمپ پوسٹ سے لٹکایا جس پر سویڈن کے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ سویڈن کی نیٹو درخواست کو سبوتاژ کرنے کی کوشش تھی۔خیال کیا جا رہا تھا کہ سویڈن کے وزیر دفاع کے دورہ ترکی سے یہ ظاہر ہو گا کہ ترکی سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کا مخالف نہیں ہے۔
تاہم گذشتہ سال ترکی نے سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی درخواست کی مخالفت کی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے ان دونوں ممالک کو نیٹو میں شامل کرنے سے روکنے کے لیے گذشتہ سال ہی اپنا ویٹو ہٹا دیا تھا۔ترکی کا کہنا ہے کہ یہ دونوں نوردک ممالک مسلح کرد گروپوں جیسے سویڈن اور ترکی PKK (کردش ورکرز پارٹی) کی حمایت بند کر دیں اور ترکی پر کچھ ہتھیاروں کی فروخت پر عائد پابندی اٹھا لیں۔ترکی کا کہنا ہے کہ سویڈن نے اس گروہ کے کچھ ارکان کو پناہ دی ہے۔ اگرچہ سویڈن ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔ترکی سیاسی مراعات بھی چاہتا ہے جس میں صدر رجب طیب اردوغان اور کرد رہنماؤں کو دہشت گرد قرار دینے والے ناقدین کی حوالگی بھی شامل ہے۔
ترکی مسلم اکثریتی ملک ہے۔ ترکی کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس عمل کی مذمت کی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ ’بار بار کی وارننگ‘ کے باوجود ایسا ہوا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ’’آزادی اظہار‘ کی آڑ میں اس اسلام مخالف عمل کی اجازت دینا، جو مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے اور ہماری مقدس اقدار کی توہین کرتا ہے، مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔‘ترکی کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ قرآن جلانے کا واقعہ اس حقیقت کی ایک اور مثال ہے کہ یورپ میں اسلامو فوبیا، نسل پرستی اور امتیازی سلوک خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ ترکی نے سویڈش حکومت سے ’ضروری اقدامات‘ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز اور سپیکر و ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے بھی سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور نذر آتش کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سویڈن میں ایک دائیں بازو کے انتہا پسند کی طرف سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے گھناؤنے فعل کی مذمت کے لیے الفاظ کافی نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ آزادی اظہار کا لبادہ دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ناقابل قبول ہے۔سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس واقعہ پر احتجاج کیا ہے۔وزارت خارجہ نے کہا ’سعودی عرب بات چیت، رواداری کو فروغ دینے، بقائے باہمی کی اہمیت کو سمجھنے پر یقین رکھتا ہے اور نفرت، انتہا پسندی کو مسترد کرتا ہے۔‘