نئی دہلی: پڑوسی ملک پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں اتوار کو جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کے جلسے میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم 44 افراد ہلاک ہو گئے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اس دھماکے میں کم از کم 200 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے بتایا کہ انہیں ایسے شواہد ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خودکش حملہ ہو سکتا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ حکام نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق دھماکے میں جمعیت کے ایک اہم مقامی رہنما بھی جاں بحق ہو گئے ہیں۔ ان کا نام مولانا ضیاء اللہ جان بتایا گیا ہے۔ زخمیوں کو ضلع اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے، کچھ زخمیوں کو قریبی علاقوں کے اسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے۔شدید زخمیوں کو پشاور لانے کے لیے ہیلی کاپٹر باجوڑ روانہ کر دیا گیا ہے۔ پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں زخمیوں کے علاج معالجے کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ابھی تک کسی شدت پسند تنظیم نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور نہ ہی پولیس نے دھماکے کی وجہ کے بارے میں کوئی اطلاع دی ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کی سرحد افغانستان کے ساتھ ملتی ہے۔ دریں اثنا پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر رہنماؤں نے دھماکے کی مذمت کی ہے۔وزیر اعظم نواز شریف نے اس معاملے پر وزیر داخلہ اور حکومت خیبر ختونخوا سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ادھر سوشل میڈیا پر ایسی کئی ویڈیوز دیکھی جا سکتی ہیں جن میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ واقعہ باجوڑ میں ہونے والے دھماکے کا ہے۔