پٹنہ: بہار کے بکسر ضلع میں زیر تعمیر چوسا تھرمل پاور پلانٹ میں گزشتہ 10 دنوں سے سینکڑوں مزدور ہڑتال پر ہیں۔ 1320 میگاواٹ کی صلاحیت والے اس تھرمل پاور پلانٹ کا سنگ بنیاد وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019 میں رکھا تھا۔ 2023 سے یہاں بجلی کی پیداوار اور تقسیم شروع کرنے کا ہدف تھا۔ لیکن کئی وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ مزدوروں کی ہڑتال کی وجہ سے یہ پاور پلانٹ ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ دوسری طرف یہاں کے کسان 11 ماہ سے زمین کے حصول کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ الزام ہے کہ پولس نے کسانوں اور ان کے اہل خانہ کو زدوکوب کیا۔باخبر حلقں کا کہنا ہے کہ یہاں کام کرنے والے تقریباً ساڑھے تین ہزار مزدور 21 ستمبر سے ہڑتال پر چلے گئے ہیں۔
مزدوروں کا مطالبہ ہے کہ انہیں کمپنی کے ریٹ بورڈ کے مطابق تنخواہ دی جائے۔ اس کے علاوہ اوور ٹائم کی اجرت بھی دی جائے اور پیسے بھی وقت پر ادا کیے جائیں۔ ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ انہیں لیبر کالونی سے پلانٹ تک جانے کے لیے طبی سہولیات اور ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات فراہم کی جائیں۔ کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایک جیسے کام کرنے والے لوگوں کو مختلف معاوضہ دیا جاتا ہے۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ یہ تھرمل پاور پلانٹ حکومت ہند اور حکومت ہماچل پردیش کا مشترکہ منصوبہ ہے۔
اس منصوبے کے آغاز کا تصور 2012-13 میں سامنے آیا تھا۔ اس کا تعمیراتی کام تقریباً 11 ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے 1,058 ہیکٹر اراضی پر چل رہا ہے۔ 2015 میں، اس کی تعمیر کی ذمہ داری ستلج جل ودیوت نگم کو دی گئی، جو ایک منی رتن کمپنی ہے جو حکومت ہند اور حکومت ہماچل پردیش کی مشترکہ ملکیت ہے۔ خبروں کے مطابق پلانٹ کی تعمیر کے لیے پچھلے دنوں مزدور کی فراہمی کے لیے ہندوستانی تعمیراتی کمپنی لارسن اینڈ ٹوبرو کی خدمات حاصل کی گئیں اور پھر ایل اینڈ ٹی نے ٹھیکیدار کمپنیوں اور ایجنسیوں کو ٹھیکے دیے۔ خبروں کے مطابق مسئلہ ان ٹھیکیدار کمپنیوں اور کارکنوں کی ادائیگیوں کا ہے۔ اس سلسلے میں ایس جے وی این اور ایل اینڈ ٹی کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کرنے اور ان کا موقف جاننے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ اس کی طرف سے فون اٹھایا گیا تو سارا معاملہ جاننے کے بعد فون بند کر دیا گیا۔