نئی دہلی(ہندوستان ایکسپریس ویب ڈسک):ہندوستان اور امریکہ ایل اے سی کے پاس بلند ترین پہاڑوں پر مشترکہ فوجی مشقیں کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں،اسی درمیان بیجنگ نے اس پر یہ کہہ کر اعتراض کیا ہے کہ چین اور ہندوستان کے درمیان سرحدی تنازعے میں یہ تیسرے فریق کی مداخلت ہے۔ جرمن خبررساں ادارہ ڈوئچ ویلے کی خبر کے مطابق چین نے سرحد کے پاس ہندوستان اور امریکہ کی فوجوں کی مجوزہ مشترکہ فوجی مشقوں پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وہ دو طرفہ سرحدی تنازعے میں کسی بھی تیسرے فریق کی جانب سے کسی بھی نوعیت کی مداخلت کا سخت مخالف ہے۔ادھر ہندوستان نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے پاس بلند ترین پہاڑیوں پر امریکہ کے ساتھ اس کی مشترکہ فوجی مشقوں کا ہدف چین نہیں ہے اور ایل سی کی صورت حال سے "بالکل مختلف” معاملہ ہے۔ ہندوستان اور امریکہ چین کی سرحد کے قریب اتراکھنڈ کے اولی علاقے میں ‘یودھ ابھیاس’ یعنی جنگی مشقوں کی ایک سیریز کا انعقاد کرنے والے ہیں۔ حکام کے مطابق اس کا آغاز 18 اکتوبر سے ہو گا اور یہ 31 اکتوبر تک جاری رہيں گی۔ یہ ہندوستان چین کی سرحد پر ان پہاڑی علاقوں میں ہو گی، جہاں گزشتہ دو برسوں کے دوران عسکری اثاثوں میں زبردست اضافے کے ساتھ ہی فوجیوں کی تعیناتی میں بھی زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔
گزشتہ روز چین اور ہندوستان دونوں ہی کی جانب سے اس موضوع پر بیان سامنے آیا۔ پہلے چین نے اس مشترکہ فوجی مشق کو سرحدی معاملے میں تیسرے فریق کی مداخلت قرار دیا، تو ہندوستان نے اپنے رد عمل میں کہا کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے قریب فوجی مشقیں ایل اے سی کی صورتحال سے، "بالکل مختلف” معاملہ ہے۔ نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا کہ اس حوالے سے دونوں فریقوں کو ماضی کے معاہدوں پر قائم رہنا چاہیے۔ ان کا کہناتھا کہ میں تیسرے فریق کی مداخلت کا حوالہ ہی نہیں سمجھ سکا۔ ہندوستان اور امریکی مشقیں بالکل مختلف ہیں اور میں نہیں جانتا کہ اس کو کیا رنگ دیا گیا ہے۔ یہ نشانہ بنانے کی بات ہے اور معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔
ہندوستانی ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان مشترکہ فوجی مشقوں کا مقصد چین کو نشانہ بنانا نہیں ہے اور نہ ہی اس سے سرحدی تنازعے سے متعلق ماضی کے معاہدوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس سے قبل جمعرات کے روز ہی چین نے متنازعہ چین ہندوستان سرحد کے قریب امریکہ-ہندوستان مشترکہ فوجی مشق کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ دو طرفہ سرحدی معاملے میں مداخلت کے ساتھ ہی نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔
چینی وزارت دفاع کے قومی ترجمان کرنل ٹین کیفی سے بیجنگ میں ایک باقاعدہ پریس کانفرنس کے دوران جب امریکہ۔ہندوستان مشترکہ فوجی مشقوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا، کہ ہم چین ہندوستان سرحدی معاملے میں کسی بھی تیسرے فریق کی مداخلت کے سخت مخالف ہیں۔
چینی وزارت دفاع کے ترجمان کا کہنا تھا کہ چین ہندوستان سرحدی تنازعہ دونوں ممالک کے درمیان کا مسئلہ ہے اور جہاں فریقین نے ہر سطح پر موثر رابطے برقرار رکھے ہیں، وہیں دو طرفہ بات چیت کے ذریعے صورتحال کو مناسب طریقے سے سنبھالنے پر بھی اتفاق کر رکھا ہے۔
ٹین کیفی نے زور دیکر کہا کہ سرحدی تنازعے سے متعلق سن 1993 اور 1996 میں چین اور ہندوستان کے درمیان جو معاہدہ طے پا یا تھا اس کی روشنی میں، لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے قریبی علاقوں میں کسی بھی فریق کو دوسرے کے خلاف فوجی مشق کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
ترجمان نے ہندوستان سے اپنے وعدوں پر قائم رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ امید ہے کہ ہندوستان دونوں ممالک کے درمیان اتفاق رائے سے طے پانے والے متعلقہ معاہدوں کی سختی سے پابندی کرے گا اور دو طرفہ چینلز کے ذریعے سرحدی مسائل کو حل کرنے کے اپنے عزم کو برقرار رکھے گا۔ وہ عملی طور پر سرحدی علاقے میں امن و سکون برقرار رکھنے کے اقدامات کرے گا۔
ہندوستان اور چین کے درمیان شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان سرحدی تنازعہ بھی دیرینہ ہے۔
ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین گزشتہ دو برس سے بھی زائد عرصے سے مشرقی لداخ میں کچھ زیادہ ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ پچھلے برس پندرہ جون کو رات گئے مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجی دستوں کے مابین شدید جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں ہندوستان کے کم از کم بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔