محمد شرافت علی
نئی پارلیمان…نئی زبان…نیاپارلیمانی کلچر۔بدلتے بھارت کاجو نمونہ21ستمبر2023کولوک سبھا میں دیکھاگیا،اسے ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ کا شرمناک ترین واقعہ قرار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔خصوصی پارلیمانی سیشن کے آخری دن ’پارلیمانی تاریخ‘ میں اس نئے باب کااضافہ بھاجپا کے فاتر العقل رکن پارلیمان رمیش بدھوڑی نے کیا۔چندریان 3 کی کامیابی پر بحث کے دوران جنوبی دہلی سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی نے امروہہ سے منتخب ہونے والے بہوجن سماج پارٹی کے رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی کےلئے انتہائی غیر مہذب اور ملک کی سب سے بڑی اقلیتی کےلئے فرقہ وارانہ و نفرت سے بھرے الفاظ کا استعمال کیا،ساتھ ہی انہیں ایوان سے باہر نکلنے پر دیکھ لینے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔یوں جمہوریت کا سب سے بڑا مندرایک منتخب مسلم رکن پارلیمان کی تذلیل کا بھی ایک اسٹیج بن گیا۔ کنور دانش علی کوایوان میں جن مختلف ناموں سے نوازاگیا،ان میں سے کئی ’نام‘ ایسے ہیں، جنہیں یہاں تحریرکیا جاناممکن نہیں کہ بدھوڑی کی غلیظ زبان غیرمہذب وناشائستہ ہی نہیں ہے بلکہ بدکلامی کا ایسا مجموعہ بھی ہے، جسے’بلوائیوں کی زبان‘ بھی کہاجاسکتا ہے۔نوٹ کرنے والی اہم بات یہ بھی ہے کہ جب بدھوڑی پارلیمان میں’بدکلامی کی نئی عبار ت‘ رکھ رہے تھے، ان کے بالکل قریب بیٹھے سابق وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن اور ان کی پشت پربراجمان سابق وزیر قانون روی شنکر پرساد مسکرا تے نظرآئے۔بعض خبروں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حکمراں پارٹی کے کچھ ممبران پارلیمنٹ نے اس دوران میز یں تھپتھپا کر بدھوڑی کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ خبروں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ، پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی اور ایوان میں موجود دیگر وزراءمیں سے کسی نے بھی بدھوڑی کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔یہ الگ بات ہے کہ راجناتھ سنگھ نے بعدازاں ایوان میں’معذرت خواہی‘ضرورکی۔
جمہوریت کے مندر میں’مریادا‘کی سرحد عبور کرنے والے حکمراں جماعت کے ’معزز رکن‘پرکسی قسم کا ایکشن نہ لیا جانااورآئندہ کیلئے وارننگ جاری کرکے اس معاملہ کو ختم کرنے کی سعی کرنایقیناباعث حیرانی نہیں ہے کہ یہ’نیا بھارت‘ہے!۔ حیرانی اس پر بھی نہیں ہونی چاہئے کہ جب ایک فاترالعقل لیڈر ایوان کو ایک مسلم رکن کی تذلیل کیلئے بطور اسٹیج استعمال کررہاتھا،جب دوسینئر بھاجپائی کے چہروں پر خوشیوں کہ لکیریں واضح طوپرکیوں محسوس کی جارہی تھیں؟یہ الگ بات ہے کہ دوسابقہ وزراءکا ’مسکراتاچہرہ‘جب کیمرے کے سامنے آگیاتو انہوں نے الگ الگ انداز میں وضاحت جاری کرتے ہوئے’اظہارِ لاتعلقی‘ کو ضروری سمجھ لیا تاکہ یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ’بھاجپا کاکلچر‘ ہے۔قوم کو شرمسارکرنے والی جو پارلیمانی تصویرمنظر عام پر آئی ہے،اس کا خلاصہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چھپارستم ہے توکوئی اعلانیہ! ۔
نئی پارلیمان میں’بلوائیوں کی زبان‘ استعمال کرنے والے بھاجپائی کے تئیں لوک سبھا کے اسپیکر کا ’مشفقانہ رویہ‘ کیا ظاہر کرتا ہے،یہ ہمیں پتہ نہیں،لیکن ’بلوائیوں کی زبان‘ استعمال کرنے والوں کا قد بی جے پی کے اندر کیسے بلند ہوتا ہے،یہ ہم سبھوں نے ماضی میں دیکھااور محسوس ضرور کیا ہے۔اس لئے اگررمیش بدھوڑی کو مرکزکی وزارتی ٹیم میں شامل کرلیا جائے تو بھی اس میں حیران ہونے کی ضرورت نہیں کہ عملاًجو سیاسی ماحول بنایاگیا ہے،اس میں یہ تو ممکن ہے کہ پارلیمانی آداب کو’ جوتیوں تلے روندنے والی شخصیت‘ انعام کی مستحق قرارپا جائے ، لیکن یہ امکان کم ہی ہے کہ بی ایس پی کے رکن پارلیمان کے خلاف پارلیمنٹ سے بیہودگی کا مظاہرہ کرنے والی’شخصیت‘ پر کوئی تادیبی کارروائی ہوگی۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کنور دانش علی کے تئیں یکجہتی کا مظاہرہ کرنے اور بھاجپائی لیڈر پر کارروائی کا مطالبہ کرنے کے معاملہ میں حزب اختلاف کے قائدین پارٹی لائن سے اوپر اٹھ کر آواز بلند کررہے ہیں۔ اس معاملہ میں کانگریس لیڈرراہل گاندھی نے دوسروں پر سبقت حاصل کرتے ہوئے کنور دانش علی کی رہائش گاہ پر پہنچ کر اُن سے ملاقات کی اور انہیں یہ کہہ کر تسلی بھی دی کہ وہ خود کو تنہا نہ سمجھیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں سے وابستہ لیڈروں نے بھی کھل کر اپنی بات رکھی ہے،لیکن اس معاملے کا جو سب سے کمزور پہلو ہے،وہ یہ کہ اپوزیشن کے قائدین اس ایشو پر فی الفورکسی قسم کی اجتماعی حکمت عملی اختیار کرنے سے قاصر رہ گئے۔ حزب اختلاف کے قائدین اگراس واقعہ کے فوراًبعدمجتمع ہوکر پارلیمانی آداب کا خیال رکھتے ہوئے’غیر معینہ مدت‘ کیلئے احتجاج پر آمادہ ہوجاتے توشاید آج تصویرکچھ اورہی ہوتی،جس کا تصور اب نہیں کیاجا سکتا۔ کہاجاسکتا ہے کہ اپوزیشن نے فوری’ ری ایکشن‘ کا موقع اس معاملے میں گنوادیا،ورنہ بدزبانی کا یہ معاملہ صرف رمیش بدھوڑی کو ہی مہنگا نہیں پڑتا،بلکہ بی جے پی کو بھی اس کی بڑی قیمت چکانی پڑسکتی تھی۔
چونکہ ’بیہودگی کا باب‘ ابھی ان معنوں میں بند نہیں ہوا ہے کہ بی ایس پی کے رکن پارلیمان کنور دانش علی نے اس ضمن میں باضابطہ لوک سبھا کے اسپیکر کو شکایتی مکتوب ارسال کیا ہے،لہٰذا اپوزیشن کیلئے دوسرا موقع موجود ہے کہ وہ اس ضمن میں مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرسکتے ہیں اور اس ایشو پراپنے زندہ ہونے کاثبوت بھی دے سکتے ہیں۔ کنور دانش علی نے بجا طورپریہ اشارہ دیا ہے کہ اگر ان کے ساتھ انصاف نہیں ہواتو پارلیمان کی رکنیت چھوڑنے پردل گرفتہ ہوکر غور کرنے پرمجبورہوں گے۔موصوف کا ایسا سوچنابالکل بھی غلط نہیں ہے۔ یہ سوال کم اہم نہیں کہ ایک معزز رکن پارلیمان آخرکیوں تذلیل جھیلنے کے بعدضمیرکو گروی رکھ کر عہدوں پر فائز رہے؟ یہ صرف کنور دانش علی کی غیرت کا سوال نہیں ہے،یہ اپوزیشن کے باضمیر ہونے یا نہ ہونے کا بھی ایک طرح سے ایشو ہے۔ویسے سوال یہ بھی ہے کہ ارباب اقتدار کا ضمیر کیا کہہ رہاہے؟ بیشک راج ناتھ سنگھ نے اس معاملہ پر ایوان میں معذرت خواہی کی ہے،لیکن اسے کافی اس وجہ سے نہیں سمجھاجاسکتاکہ یہ صرف کنور دانش علی کی توہین وتذلیل نہیں ہے بلکہ پوری پارلیمنٹ کا تقدس اور اس کی عظمت کو خاک میں ملانے کا معاملہ بھی ہے۔لہٰذاغالب کاشعر گنگناکر اس مکروہ باب کو بند نہیں کیاجاسکتا
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
پارلیمنٹ میں چونکہ بی جے پی کے رکن کے ذریعہ ایک مسلم رکن پارلیمنٹ کے وقار کو مجروح کیا گیا، فرقہ وارانہ اورگستاخانہ تبصرے کئے گئے،انہیں دہشت گرد تک کہہ دیا گیا ،لہٰذابی جے پی نے غالباً یہ سوچاکہ اگروہ خاموش رہ کراپنی ذمہ داری نبھاتی ہے،تو یہ بھی فطری ہے کہ حکمراں جماعت گرفت میں آئے گی اوراس کے’کلچر‘ پر سوال اٹھایاجائے گا،اس لئے پارٹی نے رمیش بدھوڑی کو’وجہ بتاو نوٹس‘جاری کرکے فوری طورپر 15دنوںتک کیلئے رسوائی سے بچنے کا نسخہ ڈھونڈ لیا۔یوں15دنوں تک بی جے پی سکون سے رہ سکے گی اور مخالفین سے یہ بھی کہہ سکے گی کہ اس نے تو’ فوری ایکشن‘ لیتے ہوئے نوٹس جاری کردیا ہے۔ بہرحال! پارلیمان میں رونماہونے والے اس ’شرمناک‘ واقعہ پر ایکشن لینے یا نہ لینے کا معاملہ چونکہ لوک سبھا کے اسپیکرسے متعلق ہے،لہٰذا اس ضمن میں کنور دانش علی کے شکایت نامہ کاحشرکیا ہوتا ہے،یہ دیکھا جانا چاہئے۔ویسے اسپیکر نے بھی’ فوری ایکشن‘ ضرور لیااور واقعہ کے بعدبی جے پی ایم کو ’پھٹکار‘ لگا کر ’مریادا‘ اور’گریما‘کا’پاٹھ‘ پڑھایا۔یہ الگ بات ہے کہ اس سے زیادہ کچھ ایکشن کو انہوں نے ’لازم‘ نہیں سمجھا۔ پارلیمان کو منفی سیاست کیلئے استعمال کرنا اورفرقہ واریت کا زہر ہندوستانی ایوان سے پھیلانا محض اتفاق ہرگز نہیں ۔یہ ایک نیا سیاسی تجربہ ہوسکتاہے ،اس امکان کو نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بہرحال !سڑک پر’گولی مارو….‘ اورایوان میں’ گالی دو….‘والی سیاست کانقطہ انجام کیا ہوگا، یہ دیکھاجانا ابھی باقی ہے۔