غزہ: غزہ کی وزارت صحت نے ہفتہ کے روز اعلان کیا ہے کہ 7 اکتوبر سے مسلسل غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اب تک شہداء اور زخمیوں کی تعداد بالترتیب 21672 اور 56165 ہوگئی ہے۔ ان شہداء میں بڑی تعداد فلسطینی خواتین اور فلسطینی بچوں کی ہے۔ جبکہ 312 ہیلتھ کیئر ورکرز بھی شہداء میں شامل ہیں۔وزارت صحت کے اس تازہ اعلان کے مطابق شہداء کی بہت بڑی تعداد کا تعق عام شہریوں سے ہے۔ علاوہ ازیں اسرائیلی فوج نے غزہ پر زمینی حملوں کے دوران جن فلسطینیوں کو گرفتار کیا ہے، ان میں 99 شہری غزہ کے ہسپتالوں میں کام کرنے والے ہیلتھ ورکرز ہیں۔
خیال رہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری 84 ویں بھی جاری رہی۔ شہری ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ان تمام لوگوں کے دکھ بڑھ گئے ہیں جنہوں نے اس لڑائی کے دوران اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے۔العربیہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 12 ہفتوں کے دوران غزہ کی پٹی میں ہر طرف بکھرے سفید کفن ان شہریوں کی موت کی علامت بن گئے ہیں جو 7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے کیے گئے حملے کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے مارے گئے ہیں۔ حماس کے اس حملے میں 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے اسرائیلی ریاستی دہشتگردی میں 21000 سے زیاہ فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔
غزہ کی پٹی میں خوراک، پانی اور ادویات کی شدید قلت کے برعکس سفید کفن بکثرت نظر آ رہے ہیں۔ یہ ایسے کفن ہیں جن پر محبت کے الفاظ نہیں لکھے بلکہ جنگ کی افراتفری میں مرنے والوں کے نام ممعلوم کرکے لکھنے کی فرصت بھی نہیں مل رہی۔ سفید کفنوں میں لپٹی ہوئی لاشوں کی شناخت بھی معلوم نہیں ہو رہی۔
ان صورتوں میں، کفن پر "نامعلوم مرد” اور "نامعلوم خاتون” جیسے الفاظ ہوتے ہیں اور تدفین سے پہلے مرنے والوں کی تصاویر لی جاتی ہیں اور بم دھماکے کی تاریخ اور مقام کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ تاکہ کسی نہ کسی دن مرنیوالے کے رشتہ دار ان علامات سے ہی اپنے پیارے کو پہنچان سکیں۔
غزہ میں تنازع مزید بگڑتا ہے تو بھی امید کی جاتی ہے کہ عرب حکومتوں اور خیراتی اداروں کی طرف سے عطیہ کردہ سفید کفنوں کی سپلائی بڑھ جائے گی لیکن ہلاکتوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے اور بعض اوقات ان کفنوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ ترسیل میں مشکل کے باعث دستیابی کا خلا بھی پیدا ہوجاتا ہے۔
قیراطا ن ایسوسی ایشن فار پریپیرنگ دی ڈیڈ کے ایک رضاکار محمد ابو موسی نے کہا کہ ہم حیران تھے کہ وہاں کفنوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ یہ کفن لوگوں نے خیرات کئے تھے۔ جنگ سے قبل کے دنوں میں غزہ میں کفن ختم ہوگئے تھے۔ آغاز میں مجھے کفن نہیں مل رہا تھا ور میں نے ایک کفن میں چار سے پانچ شہدا کو لپیٹا تھا۔
ابو موسیٰ نے مزید کہا کہ یہاں قینچیوں اور چھپڑیوں کی کمی ہوگئی ہے۔ کفن کی تیاری میں ان اشیا کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا اس وقت غزہ کی پٹی میں قینچی کو تلاش کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ ابو یوسف النجار ہسپتال کے ڈائریکٹر مروان الھمص کا کہنا ہے کہ سفید کفنوں کا پھیلاؤ غزہ کی پٹی میں مصائب کی حد کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہیدوں کے ہجوم نے سفید کفن کو اس جنگ کی علامت بنا دیا اور یہ دنیا کے اندر اپنے اثر و رسوخ میں فلسطین کے پرچم کے برابر ہو گیا ہے۔ غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع شہر رفح کے ایک ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ عرب عطیہ دہندگان کی طرف سے آنے والے تابوت لپیٹے ہوئے آتے ہیں اور ان میں لاش کی تیاری کے تقاضے ہوتے ہیں۔
غزہ کی پٹی میں وزارت صحت کے ایک اہلکار نے کہا کہ کفن کی دو قسمیں ہیں۔ کپڑے اور نائلون کا کفن۔ نائیلون کے کفن دو رنگوں کالے اور سفید رنگ میں آتے ہیں۔ بعض اوقات کفن کی تیاری میں ہم دونوں رنگوں کواستعمال کرتے ہیں۔
غزہ کی پٹی میں عام اوقات میں جب کسی شخص کی موت ہوتی ہے تو اس کا ایک رشتہ دار تابوت خریدنے کے لیے بازار پہنچ جاتا ہے۔ لیکن ایک مقامی صحافی عبدالحمید عبدالعطی کے لیے جنگ کا وقت ایسے مناظر دیکھنے میں آئے ہیں کہ غزہ میں ہر طرف افراتفری اور تباہی ہے۔ صحافی عبد الحمید نے بتایا کہ ملبے تلے سے نکالی جانے والی نعشوں میں میری ماں اور بھائی کی نعشیں بھی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پہلے کو میرے بھائی کو کفن دیا گیا۔ میری والدہ سمیت باقی افراد کی لاشوں کو کمبل میں لپیٹ دیا گیا تھا۔ میں ان کو برہنہ کرنے کو تیار نہیں تھا اور کفن کو چادروں کے اوپر رکھ دیا تھا۔ انہوں نے کہا غزہ میں ہر کوئی خوفزدہ ہے۔ رات ہوتے ہی لوگ پھنسے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ ہر ایک اپنی موت کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔