نئی دہلی، 28 دسمبر (یو این آئی) بانگ درا اقبال کا اولین اردو مجموعہ کلام ہے یہ کتاب اقبال کی فکر کے ارتقا ئی مراحل کا پتا دیتی ہے سالِ رواں بانگ درا کی اشاعت کا سواں سال ہے ایک صدی گزرنے کے بعد بھی فکر اقبال کی تازگی ماند نہیں پڑی ہے بانگ درا زندہ متن ہے۔ زندہ متن وقت کے ساتھ بدلتے طرز تفہیم کو نئے سرے سے غورو فکر کی دعوت دیتاہے،نیا حوصلہ اور نئے ولولے عطا کرتا ہے ان خیالا ت کا اظہارسمینار کے کنوینر پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام ”بانگ درا“ کی اشاعت کے سو سال مکمل ہونے پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
پر وگرام سے قبل سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی وفات پر قراداد پیش کی گئی -منموہن سنگھ کو ان کی اقبال شیدائی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ ہمارے سابق وزیر اعظم کو دیوناگری نہیں آتی تھی اس لیے وہ نستعلیق میں ہی پڑھتے تھے اور علامہ اقبال کے شیدائی تھے، انھوں نے پارلیمنٹ میں جتنے بھی اشعار پڑھے اتفاق سے سبھی اقبال کے ہی تھے۔ اس موقع پر یہی دعا گو ہوں کہ اللہ ان کی روح کو سکون بخشے۔
افتتاحی تقریب میں پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے کلیدی خطبہ پیش کر تے ہوئے کہا کہ اقبال سے پہلے اردو نظموں کا دائرہ بہت محدود تھا۔ موضوع و اسلوب دونوں اعتبار سے اقبال اپنی نظموں میں منفرد و یکتا نظر آتے ہیں۔ اقبال کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی نظموں میں متضاد کیفیات و منظرنگاری کو پیش کرتے ہیں، اگرچہ وہ انگریزی مفکرین سے متاثر تھے لیکن انھوں نے اپنی شاعری کو قرآن اور اسوہ رسول پر مرکوز رکھا۔ بطور مہمانِ خصوصی پروفیسر رحمت یوسف زئی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اقبال جتنے اہم کل تھے، ا?ج بھی ہیں اور کل بھی رہیں گے۔ بیسویں صدی اقبال کی صدی تھی۔ اقبال نے جس نظام کا خواب دیکھا وہ نظامِ عدل و انصاف تھا جو اسلام پر مبنی تھا۔
صدراتی خطاب میں پروفیسر عبدالحق نے اردو اکادمی دہلی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس ادارہ کی اولیت ہے کہ اس قسم کا پروگرام منعقد کیا۔انہوں نے بانگ درا پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بانگ درا ہندوستان کی تاریخ میں سیاسی اہمیت کا حامل ہے، بیسویں صدی کی ابتدائی پچیس سال کی ہندوستانی تاریخ کی تخلیقی مثال ہے، اسی زمانے میں اقبال پہلا شاعرہے جس کے اشعار محاوروں کی شکل میں زبان زد و عام ہوئے۔ اقبال تو صدیاں نہیں بلکہ ابدالا?بادتک کے لیے ہیں کیونکہ ان کی نسبت رسالت ما?ب سے ہے۔
اکادمی کے سکریٹری محمد احسن عابد نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ اب تک اقبال کے تعلق سے یہ بات واضح ہے کہ انھوں نے ذاتی و انفرادی زندگی پر بہت زیادہ اثر ڈالا ہے لیکن اجتماعی زندگی کے متعلق ان کا کیا تاثر رہا ہے شاید اس سمینار میں سامنے ا?ئے۔اس اجلاس کی نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر جاوید حسن نے بخوبی نبھائی۔
افتتاحی تقریب کے بعد سمینار کا پہلا اجلاس شروع ہوا جس کی صدارت پروفیسر شریف حسین قاسمی نے اور نظامت ڈاکٹر حبیب الرحمن نے کی۔ بطور مقالہ نگار پروفیسر توقیر احمد خاں (بانگِ درا کی اشاعت: ایک تعارف) ڈاکٹر الطاف انجم (کلامِ اقبال اور نوتاریخیت)، ڈاکٹر عرفان اللہ فاروقی (علاقائی قومیت کا تصور اور اقبال کی اسلامی اردو شعریات)، ڈاکٹر معیدالرحمن (اقبال کی نظموں کا نوا?بادیاتی مطالعہ) نے اپنے مقالات پیش کیے۔ صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہا کہ جو کچھ اقبال نے فارسی میں کہا ہے ممکن ہے وہ اردو میں اضافہ ضرور ہو لیکن مختلف ضرور ہے۔ اقبال اور دہلی کے حوالے سے انھوں نے اقبال کے اشعار کو پیش کرتے ہوئے علمی گفتگو کی اور ہندوستان میں اقبالیات کے مطالعے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سروپ سنگھ نے اس زمانے میں اقبال پر سمینار منعقد کرایا جس زمانے میں ہندوستان میں اقبال کا نام لینا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ ہندوستان اور پاکستان میں کلامِ اقبال کے اثرات کی بات تو نہیں کرسکتا لیکن اقبال کے فارسی کلام نے ایران پر بہت اثر ڈالا ہے، مکتب سے لے کر یونیورسٹی تک اقبال نصاب میں موجودہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا جس طرح اقبال نے تعارف کرایا ہے ویسا کوئی دوسرا ہندوستانی شاعر نظر نہیں آتا۔
دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر خالد علوی اور نظامت محمد فیصل خاں نے کی۔ اس اجلاس میں پروفیسر اسلم اصلاحی (آیاتِ بینات)، ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی (شکوہ و جواب شکوہ: فنی جائزہ)، ڈاکٹر عبدالسمیع (نظم فلسفہ? غم کا فنی و فکری مطالعہ)، ڈاکٹر امیر حمزہ (بانگِ درا میں بچوں کی نظمیں اور تشبیہاتی نظام) نے مقالات پیش کیے۔
صدارتی تقریرمیں پروفیسر خالد علوی نے تمام مقالات پرگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علامہ نے تضادات کا خوب استعمال کیا ہے۔آج بھی علامہ کے بعض اشعار ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ گیان چند جین کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر بانگِ درا کے ہوتے ہوئے کوئی دیوانِ غالب اٹھارہا ہے تو مجھے اس پر افسوس ہوتا ہے۔اقبال کی شاعری میں آج بھی کچھ اشارات ایسے ہیں جن کے جوابات نہیں ملتے ہیں، اگر ہم جوابات ڈھونڈنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو شک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
اردو اکادمی دہلی جیسا کہ اپنی علمی، ادبی و ثقافتی روایات کی تر ویج و تشہیر کے لیے ایک منفر د ادار ہ ہے اس ادارہ نے عظیم و مفکر و شاعر علامہ اقبال کا لازوال شعری مجموعہ ”بانگ درا“ کی اشاعت کے سو سال مکمل ہونے پرسمینار کا انعقادکیا جس میں ملک بھر سے دانشور ان و ادبا شریک ہوئے۔