کلکتہ14مئی (یواین آئی) گورنر سی وی آنند بوس پر لگائے چھیڑ چھاڑ کے معاملے میں جانچ کمیٹی نے ایک رپورٹ ریاستی سیکریٹریٹ نوبنو میں پیش کیا گیا ہے۔تاہم ایک اور خبر سامنے آئی ہے کہ ایک سال قبل لال بازار میں ایک رقاصہ نے بھی گورنر کے خلاف جنسی زیادتی کے الزامات عائد کئے تھے۔راج بھون میں کام کرنے والی ایک عارضی خاتون ملازم نے پہلے ہی گورنر کے خلاف چھیڑ چھاڑ کی شکایت درج کراچکی ہے۔ ریاست کی ہنگامہ خیز سیاست۔ ذرائع کے مطابق یہ شکایت راج بھون کے اندر چھیڑ چھاڑ کی شکایت سے بہت پہلے درج کرائی گئی تھی۔
ذرائع کے مطابق اڈیسہ کے ڈانسر نے الزام لگایا کہ گورنر بوس نے جون 2023 میں نئی دہلی کے ایک ہوٹل میں اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ مبینہ طور پررقاصہ کو دارالحکومت میں ایک تقریب میں رقص کرنے کے لیے لے جایا گیا تھا۔ ان کے لیے نئی دہلی کے ایک لگژری ہوٹل میں ایک کمرہ بک کیا گیا تھا۔ گورنر کے ایک رشتہ دار نے ہوٹل کے کمرے کی بکنگ کرائی تھی۔شکایت کنندہ کے مطابق چھیڑ چھاڑ کا یہ واقعہ گزشتہ سال 5 اور 6 جون کو پیش آیا تھا۔ کلکتہ واپس آنے کے بعد رقاصہ نے لال بازار میں گورنر کے خلاف شکایت کی۔ لیکن آئین کے مطابق پولیس کسی آئینی عہدے پر فائز شخص کے خلاف کوئی تفتیش نہیں کر سکتی۔ لہٰذا لالبازار نے شکایت کنندہ کی شکایت کی بنیاد پر تحقیقات شروع کردی۔
لالبازار نے اس انکوائری سے متعلق رپورٹ نوانا کے محکمہ داخلہ کو سونپی ہے۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ لفافے میں دی گئی رپورٹ میں کیا ہے۔دوسری طرف 2 مئی کو راج بھون کی ایک عارضی خاتون عملہ نے گورنر کے خلاف چھیڑ چھاڑ کے الزامات لگائے۔ انہوں نے گورنر کے خلاف ہیئر اسٹریٹ پولیس اسٹیشن میں تحریری شکایت بھی درج کرائی۔ شکایت موصول ہوتے ہی پولیس نے تحقیقات شروع کردی۔ تفتیشی افسران نے تلاشی کی ابتدائی رپورٹ ہفتہ کو کلکتہ کے پولس کمشنر ونیت گوئل کو پیش کی۔
ترنمول کانگریس کی حکومتنے چھیڑ چھاڑ کے الزامات کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے گورنر کے خلاف مسلسل بیان بازی کررہی ہے۔ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی سے لے کر ترنمول کے کئی لیڈروں نے بوس کے خلاف آواز اٹھانا شروع کر دی۔ گورنر بھی خاموش نہیں ہیں۔ تاہم گورنر نے شروع سے ہی تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ ان کے مطابق اس طرح کے الزامات سیاسی مقاصد کے تحت لگائے گئے ہیں ۔ راج بھون کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہےکہ آئین کے آرٹیکل 361 (2)، (3) کے مطابق، گورنر کے عہدے پر رہتے ہوئے ملک کی کسی بھی عدالت میں ان کے خلاف فوجداری تحقیقات کی کارروائی نہیں چلائی جا سکتی ہے۔ یواین آئی۔نور