نئی دہلی (فرحان یحییٰ ): جامعہ نگر ابو الفضل انکلیو میں واقع ہوٹل ریور ویو کے سربراہ و سرپرست ادبی و علمی ذوق رکھنے والے ماہر تعلیم جناب کلیم الحفیظ کے دولت خانہ پر دہلی کے نمائندہ اور ممتاز شعرا کی خوبصورت نشست کا انعقاد کیا گیا،
نشست کی صدارت معروف شاعر اور اردو اکادمی دہلی کے سابق وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول نے کی۔ محفل میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے جناب صہیب فاروقی نے شرکت کی اور شمع روشن کرکے نشست کا باقاعدہ آغاز کیا۔ جب کہ نظامت کے فرائض معروف ومشہور ناظم مشاعرہ معین شاداب نے بخوبی انجام دیے۔ صدارتی خطبے میں پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ اردو کو زندہ رکھنے کے لیے کلیم الحفیظ جیسے اردو کے دیوانے کم ہیں۔ ہمیں ان پر نہ صرف فخر ہے بلکہ توقع ہے کہ وہ اس زبان کے لیے اور بھی اقدام کریں گے۔ویسے کلیم الحفیظ ایک عرصہ سے اردو کے فروغ کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں مجاہدانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔جناب کلیم الحفیظ نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اردو کی بقا کے لیے ناگزیر ہے کہ ہم اس طرح کی محفلیں منعقد کرتے رہیں اور ہماری اخلاقی ذمے داری بھی ہے کہ ہم اس کی بقا اور تحفظ کے لیے مشترکہ کوششیں بھی کرتے رہیں تب ہی اردو کا تحفظ ممکن ہوسکے گا اور اس کے فروغ کی راہیں ہموار ہوں گی ورنہ اس زبان کو مٹانے والے اصل مجرم ہم ہی ہوں گے۔
اس محفل میں پروفیسر شہپر رسول،صہیب احمد فاروقی، پروفیسر رحمنٰ مصور،معین شاداب،ایم آر قاسمی،اعجاز انصاری، حامد علی اختر، وسیم راشد، اسلم چشتی،ڈاکٹر خان محمد رضوان، ڈاکٹر خالد مبشر،ابھیشیک تیواری ،اشکارا خانم کشف، خالداخلاق،راجیو ریاض اور اختر اعظمی جیسے اہم اور ممتاز شعرا نے شرکت کی۔
نشست میں شریک شعرا کے منتخب اشعار پیش ہیں۔
تمہارے شہر میں ہر شخص کیوں ڈرا ہوا ہے
ہر ایک راہ میں کیا آئینہ لگا ہوا ہے
( شہپر رسول)
مٹا دے تیرگی قلب و نظر کی
تجلی وہ ردا سے چاہتا ہے
( ایم آر قاسمی)
ہم کو ایسا گمان ہونے لگا
وقت کچھ مہربان ہونے لگا
( صہیب احمد فاروقی)
یہ کس کا شہر تھا بازار تو بہت تھے وہاں
مگر کفن کے علاوہ کچھ اور تھا ہی نہیں
( معین شاداب)
کسی نظر کی تمنا ابھی بچی ہوئی ہے
سو میری آنکھ میں کچھ روشنی بچی ہوئی ہے
( رحمان مصور)
اے خاک ہند بول کہ تو جانتی ہے سب
کچھ تو بتا کہاں مرے لعل و گہر گئے
( خالد مبشر)
زندگی جن کی گزرتی ہے مثالوں کی طرح
یاد رکھتے ہیں انہیں لوگ مثالوں کی طرح
( وسیم راشد)
کِھلا ہوا ہے ابھی تک جو پھول الفت کا
اسے بچاؤ کہ یہ بھی یہاں کا حصہ ہے
(خان رضوان)
میں اک چراغ ہوں چاہے کہیں رکھو مجھ کو
میں روشنی کے سوا اور کچھ نہیں کرتا
( ابھیشیک تیواری)
خواہشات کو ممکن ہے بس میں کرنا
ان کی نافرمانی کرنی پڑتی ہے
( خالد اخلاق)
جب بناتا ہے کوئی اپنی محبت کا مکاں
بھیگ کر اس کو پسینے میں مزہ آتا ہے
( اختر اعظمی)
جمی ہے گرد آنکھوں میں بہت دن ہو گئے روئے
چلو پھر آج ماضی میں اترکر دیکھ لیتے ہیں
(اشکارا خانم کشف)
دل مرا دل نہیں جیسے کہ ہو یہ کوئی سرائے
جو بھی آتا ہے ٹھہرتا ہے چلا جاتا ہے
( راجیو ریاض)