پریاگ راج(یواین آئی)تعدد ازدواج کی وجہ سے مسلم میاں۔بیوی کی ازدواجی زندگی میں آئی تلخی سے وابستہ ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر ایک مسلمان شوہر اپنی بیوی اور بچوں کی کفالت اور ان کے ساتھ عدل نہیں کرسکتا تو قرآن کی رو سے دوسری شادی کا جواز نہیں ہے۔
ہائی کورٹ نے یہ حکم عزیز الرحمان نامی ایک شخص کی عرضی پر سماعت کے بعد دیا جس میں اس نے نچلی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا ۔ سنت کبیر نگر کی ایک فیملی کورٹ نے عزیز الرحمان کی اس درخواست مسترد کردیا تھا جس میں اس نے عدالت سے کہا تھا کہ دوسری شادی کرنے کے باوجود اسے بھارتی قانون کے تحت پہلی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے کا حق ہے۔اور عدالت اس کی پہلی بیوی سے کہے کہ وہ اس کے ساتھ رہے۔
عدالت عزیزالرحمان اور حمیدالنساء کے ازدواجی زندگی کے حوالے سے داخل ایک کیس کی سماعت کررہی تھی۔ عزیز الرحمان اور حمید النساء کی مئی 1999میں شادی ہوئی تھی اور ان کے چار بچے ہیں۔عزیزالرحمان نے بعد میں ایک دوسری خاتون سے بھی شادی کرلی اور ان سے بھی کئی بچے ہیں۔ لیکن عزیزالرحمان نے دوسری بیوی اور بچوں کے بات پہلی بیوی سے چھپائے رکھی اور بعد میں جب راز کھلا تو دوسری شادی کے بارے میں کوئی وضاحت کرنے میں ناکام رہا۔ حمیدالنساء اس کے بعد ان کا گھر چھوڑ کر چلی گئیں اور اپنے 93 سالہ والد کے ساتھ رہ رہی ہیں۔
عزیزالرحمان سن 2015 میں اترپردیش کی ایک فیملی کورٹ سے رجوع کیا اور اپنے ازدواجی تعلقات کو بحال کرانے کے لیے حکم دینے کی درخواست کی۔ انہوں نے اپنی عرضی میں عدالت سے استدعا کی کہ وہ ان کی پہلی بیوی کو ان کے ساتھ رہنے کا حکم دے۔عدالت نے رواں برس اگست ان کی یہ درخواست مسترد کردی جس کے بعد انہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیاتھا۔
قرآن کی سورۃ نمبر 3(سورہ نساء) کی آیت 4کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس سوریہ پرکاش کیسروانی اور جسٹس راجندر کمار کی بنچ نے کہا’ قرآن کے اس حکم کے پیش نظر یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ جب تک کوئی مرد یتیموں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا، جو کہ موجودہ کیس میں مدعا علیہ (پہلی بیوی) اور اس کے بچے ہیں وہ دوسری شادی نہیں کرسکتا۔
بنچ نے کہا’قرآن کی یہ آیت کہتی ہے کہ ’ اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کر ان کے ساتھ عدل نہ کرسکوگے تو پھر ایک ہی بیوی کرو‘۔
بنچ نے کہا کہ مسلم مرد اگر اپنی پہلی بیوی اور بچوں کی کفالت اور ان کے ساتھ عدل نہیں کرسکتا تو قرآن کی رو سے اسے دوسری شادی کرنے کا جواز نہیں ہے ۔اس طرح، دوسری شادی کے لیے کوئی معقول وجہ کے بغیر یا پہلے بیان کیے گئے معاملات کے حوالے سے پہلی بیوی کو بتائے اور اس کی رضامندی کے بغیر کی صورت میں،اپیل کنندہ کا عمل اس کی پہلی بیوی کے ساتھ ظلم کے مترادف ہوگا۔
لہٰذا عدالت کے لیے یہ ناانصافی ہوگی کہ وہ پہلی بیوی کو اس کی مرضی کے خلاف ایسے شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور کرے جو کہ مدعی ہے۔عدالت نے کہا’اگرچہ کہ ایک مسلم شوہر کو پہلی بیوی کے رہتے ہوئے دوسری شادی کرنے کا قانونی حق حاصل ہے تاہم وہ اس صورت میں پہلی بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے مجبور نہیں کرسکتی کیونکہ عدالت کے خیال میں "اس عورت کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا غیرمنصفانہ اور غیرمساوی ہوگا۔
عدالت نے کہا کہ اگر شوہر پہلی بیوی کی مرضی کے خلاف دوسری شادی کرتا ہے، اور اس کے بعد بعد پہلی کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرنے کے لیے سول کورٹ کی مدد بھی چاہتا ہے تو عدالت دوسری شادی کے تقدس کا احترام کرے گی، لیکن پہلی بیوی کو اس کی خواہش کے برعکس بدلے ہوئے حالات میں شوہر کے ساتھ رہنے اور کسی دوسری عورت کے ساتھ شراکت داری اداکرنے پر مجبور نہیں کرے گی۔
عدالت نے کہا کہ اگر ازدواجی حقوق کے سلسلے میں شوہر کے دلائل کو قبول کرلیا جاتا ہے اور ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے شوہر کے حق میں فیصلہ دیا جاتا ہے تو یہ بیوی کے نقطہ نظر سے آئین ہندکے تحت اسے حاصل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔
بنچ نے کہا، "اگر ازدواجی حقوق کے حکم نامے کی منظوری کے لیے شوہر کی دلیل کو قبول کر لیا جاتا ہے، تو بیوی کے نقطہ نظر سے، یہ آئین ہند کے آرٹیکل 21 کے تحت ضمانت دیے گئے اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔ لہذا مذکورہ تمام وجوہات کی بناء پر، موجودہ اپیل مکمل طور پر فضول ہے اور ابتدائی مرحلے میں ہی مسترد کئے جانے کی مستحق ہے۔اسی لئے عرضی خارج کی جاتی ہے۔ ملحوظ رہے کہ قرآن کی سورۃ4 آیت 3 (سورہ نساء)کہتی ہے کہ’ بنچ نے کہا’قرآن کی یہ آیت کہتی ہے کہ ’ اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کر ان کے ساتھ عدل نہ کرسکوگے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضے میں آئیں ہیں۔بے انصافی سے بچنے کے لئے یہ زیادہ قرین صواب ہے‘۔گذشتہ 19ستمبر کے اپنے اس فیصلے میں ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے قرآن کی اس آیت کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے انگریزی ترجمہ کو ہوبہو ذکر کیاہے۔