اب تک 11مقدمات میں 20 سال قید کی سزا سنائی جاچکی ہے جبکہ کئی معاملوں میں فیصلہ آنا ابھی باقی ہے
نئی دہلی( ہندوستان ایکسپریس ویب ڈسک): انتخابی نتائج میں جعلسازی کے الزام کے معاملہ میں میانمار کی سابق سویلین رہنما آنگ سان سوچی کو مزید 3 سال قید کی سزا سنادی گئی۔یہ اطلاع بی بی سی کی رپورٹ میں دی گئی ہے۔ ان کے وکلا نے بی بی سی کو بتایا کہ ملک کی سابق رہنما آنگ سان سوچی کو اب 11 مقدمات میں 20 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے اور کئی الزامات پر کارروائی ابھی باقی ہے۔میانمار کی رہنما خود پر لگے تمام الزامات کی تردید کرتی ہیں اور انسانی حقوق گروپوں کی جانب سے سیاسی مقاصد کے تحت دائر کیے جانے والے ان مقدمات کی مذمت کی گئی ہے۔ اگر تمام الزامات پر جرم ثابت ہو گیا تو انھیں تقریباً 200 سال قید ہو سکتی ہے۔
ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ نئی سزا میں سخت مشقت بھی شامل ہے۔ 77 سالہ نوبل انعام یافتہ رہنما نے اپنا زیادہ تر وقت دارالحکومت میں اپنے گھر میں نظربندی کے دوران گزارا ہے۔عوام اور میڈیا کو بند کمرے میں ہونے والی سماعت تک رسائی حاصل نہیں ہے اور فوج نے ان کے وکلا کو صحافیوں سے بات کرنے سے روک دیا ہے۔
عدالت نے انھیں نومبر 2020 کے عام انتخابات میں دھوکہ دہی کا مرتکب قرار دیا جن میں ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ووٹوں میں بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کے الزام کے بعد فوج نے گذشتہ سال بغاوت کر دی تھی لیکن آزاد انتخابی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن ’عوام کی مرضی کی نمائندگی‘ کرتے تھے۔
بی بی سی کی اطلاع میں بتایا گیا ہے کہ شہری حقوق اور جمہوریت کے گروپوں نے آنگ سان سوچی اور دیگر کے خلاف قانونی کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ وہ ایک ’شرمناک مقدمے‘ کا سامنا کر رہی ہیں۔ میانمار کی فوجی حکومت کا کہنا ہے کہ سوچی کا ٹرائل قانونی عمل کا حصہ ہے۔
ایمنٹسی انٹرنیشل کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ فوج قانونی نظام کو ’مخالفین کے خلاف ایک اور آسان ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ’آنگ سان سوچی پر مسلسل قانونی حملہ اس بات کی مثال ہے کہ کس طرح فوج نے مخالفین، ناقدین اور مظاہرین کے خلاف سیاسی انتقام کے تحت مقدمات دائر کر کے عدالتوں کو ہتھیار بنایا۔‘
گذشتہ فروری میں فوج کے پرتشدد قبضے کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے جس کے جواب میں میانمار کی فوج نے جمہوریت کے حامی مظاہرین، کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔
اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پرزنرز (برما) کے مطابق، آن سان سوچی اور ان کی پارٹی کے بہت سے اراکین کو جن میں 15,000 سے زیادہ افراد میں شامل ہیں، جنتا نے اقتدار پر قبضے کے بعد گرفتار کیا تھا، ان میں سے 12,000 افراد اب بھی قید میں ہیں۔
جمعے کو میانمار میں برطانیہ کے سابق سفیر اور ان کے شوہر کو امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر ایک ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔
وکی بومن، جنھوں نے 2002 سے 2006 تک میانمار میں برطانیہ کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں، اور ایک فنکار ہیٹین لن کو گذشتہ ہفتے رنگون میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔