چندی گڑھ(ایجنسیاں): موہالی میں واقع چنڈی گڑھ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مبینہ طور پر لڑکیوں کی ویڈیو لیک کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ویڈیو بنانے کا الزام ہاسٹل میں رہنے والی ایک لڑکی پر ہے۔ پولیس نے ملزم لڑکی کو گرفتار کر لیا اور معاملے کی تفتیش کی جا رہی ہے۔معاملے کی اطلاع ملتے ہی طلبہ کی بڑی تعداد رات کو یونیورسٹی کیمپس میں جمع ہو گئی اور مظاہرہ کیا۔ ویڈیو میں طلبہ کا ایک بڑا ہجوم کیمپس میں احتجاج کرتے ہوئے اور ‘ہمیں انصاف چاہیے’ کے نعرے لگاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر طلبہ کو منانے کی کوشش کی۔ موہالی کے ایس ایس پی وویک سونی نے بتا یا کہ ایک معاملہ سامنے آیا تھا کہ ہاسٹل میں رہنے والی ایک لڑکی نے کوئی ویڈیو بنائی ہے۔ اس کے بعد یہ افواہ پھیل گئی کہ دوسری لڑکیوں کی ویڈیو بھی بنائی گئی ہے۔ جس کے بعد طلباء نے مظاہرہ کیا۔ اس معاملے میں ایف آئی آر درج کر کے ملزم لڑکی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔وہیں، سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ کئی لڑکیوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی ہے۔ تاہم اسٹوڈنٹ ویلفیئر آفیسر کا کہنا ہے کہ صرف ایک لڑکی بیہوش ہوئی تھی۔ جس کے بعد اسے اسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں اس کی حالت مستحکم ہے۔ ساتھ ہی ایس ایس پی نے کہا کہ میڈیکل ریکارڈ کے مطابق کسی لڑکی کی موت نہیں ہوئی ہے۔ یہ صرف ایک افواہ ہے۔پنجاب اسٹیٹ ویمن کمیشن کی چیئرپرسن منیشا گلاٹی نے کہا، ’’یہ ایک سنگین معاملہ ہے، اس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے تمام طلبہ کے والدین کو تیقن دیا کہ قصوروار کو بخشا نہیں جائے گا۔‘‘پنجاب کے وزیر تعلیم ہرجوت سنگھ بینس نے ٹویٹ میں تمام طلبہ سے اپیل کی ہے کہ وہ پرسکون رہیں، کسی بھی قصوروار کو بخشا نہیں جائے گا۔ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی عزت سے وابستہ ہے۔ عام آدمی پارٹی کے قومی کنوینر اروند کیجریوال نے ٹوئٹ کیا کہ یہ بہت سنگین اور شرمناک ہے۔ اس میں ملوث تمام مجرموں کو سخت ترین سزا ملے گی۔ اسی دوران ایک اور ویڈیو میں ہاسٹل میں رہنے والی دیگر لڑکیاں ملزم لڑکی سے پوچھ گچھ کرتی نظر آ رہی ہیں۔ اس ویڈیو میں ملزم نے ویڈیو بنانے کا اعتراف کیا ہے۔ اس سے یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ کیا کوئی آپ پر ویڈیو بنانے کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا؟
اس درمیان بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی کی کچھ طالبات کی جانب سے میڈیا کو بھیجے گئے آڈیو پیغام میں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ہاسٹل کی ایک طالبہ نے دوسری طالبات کی نہاتے ہوئے خفیہ ویڈیو بنا کر وائرل کر دیں۔
پہلے خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ ویڈیو چار لڑکیوں کی ہیں لیکن وائرل ہونے والی آڈیو میں ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ اس میں لڑکیوں کی بہت سی ویڈیوز ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اس پر کوئی سخت کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔
اس واقعے کے بعد یونیورسٹی کیمپس میں احتجاج کرنے والے طلبہ کی ویڈیوز بھی سامنے آ رہی ہیں۔ پہلے تو یونیورسٹی انتظامیہ نے خود معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی لیکن حالات قابو سے باہر ہوتے دیکھ کر پولیس کو طلب کر لیا گیا۔
اس معاملے میں ایف آئی آر درج ہونے کے بعد طلبا پرامن ہو گئے ہیں۔ یونیورسٹی نے کیمپس کے دروازے بند کر دیے ہیں اور میڈیا کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔
پنجاب کے وزیر تعلیم ہرجوت سنگھ بینس نے ٹویٹ کرتے ہوئے طلبا سے پُر امن رہنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ کسی بھی قصوروار کو بخشا نہیں جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ انتہائی حساس ہے اور ماؤں بہنوں کی عزت سے جڑا ہے، میڈیا سمیت ہم سب کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
پنجاب ویمن کمیشن کی چیئرپرسن منیشا گلاٹی نے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس معاملے پر ایس ایس پی اور ڈی سی سے بات کی ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ اس یونیورسٹی کا بھی دورہ کریں گی جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔
دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے متاثرہ لڑکیوں سے ہمت سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔
ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ ’چندی گڑھ یونیورسٹی میں ایک لڑکی نے کئی طالبات کی قابل اعتراض ویڈیو ریکارڈ کر اسے وائرل کر دیا ہے، یہ بہت سنگین اور شرمناک ہے۔ اس میں ملوث تمام مجرموں کو سخت سزا دی جائے گی۔ متاثرہ بیٹیوں میں ہمت ہے۔ ہم سب تم سے پیار کرتے ہیں۔ ہم ساتھ ہیں سب کو تحمل سے کام لینا چاہیے۔‘
ایک دوسری وائرل ویڈیو میں ہاسٹل وارڈن ملزم لڑکی سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ جس میں لڑکی کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ اس نے کچھ ویڈیوز بنا کر شملہ میں رہنے والے ایک لڑکے کو بھیجی تھیں۔وارڈن نے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا جس کا لڑکی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
بی بی سی کے نامہ نگار گرومندر سنگھ گریوال کے مطابق خودکشی کی مبینہ کوشش کرنے والی طالبات میں سے چند کی حالت تشویشناک ہے۔ میڈیا کی خبروں میں یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ ایک طالبہ کی موت ہوگئی ہے لیکن پولیس نے اسے افواہ قرار دیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکیوں نے خودکشی کی کوشش نہیں کی بلکہ احتجاج کے دوران گرمی کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی تھیں۔
یہ معاملہ اتوار کی صبح تقریباً تین بجے پولس کے علم میں آیا اور پولس ابھی تک اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ تاہم پولیس نے اب تک اس معاملے میں باضابطہ طور پر کوئی سرکاری بیان نہیں دیا ہے۔
موہالی کے ایس ایس پی وویک سونی نے صحافیوں کو بتایا کہ اب تک پولیس کو ایسے شواہد نہیں ملے جس سے یہ ظاہر ہو کہ طالبات نے خودکشی کی کوشش کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ کچھ طالبات کو ہسپتال لایا گیا تھا لیکن ڈاکٹروں کی اب تک کی میڈیکل رپورٹس میں خودکشی کی کوشش کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ انھوں نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی افواہوں پر یقین نہ کریں اور اس معاملے میں کسی کی ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔