نئی دہلی (ایجنسیاں) کانگریس صدر کا انتخاب چند ہفتوں کے لیے ملتوی ہونے کی امید ہے اور 28 اگست کو ہونے والی کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کی میٹنگ میں حتمی شیڈول کا فیصلہ کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ کانگریس کو 2019 سے ہی نئے صدر کی تلاش ہے۔ حالانکہ رواں برس ستمبر میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے ادے پور جنتن شیویر میں تیاریاں جاری ہیں، لیکن اس درمیان یہ خبر آگئی ہے کہ صدارتی الیکشن کو کچھ ہفتوں کیلئے ٹالا جاسکتا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق نئے صدر کے انتخاب کے لیے ڈیڈ لائن سر پر آن پہنچی ہے لیکن کانگریسیوں کی تلاش ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
راجستھان کے وزیر اعلیٰ اور کانگریس کے سینئر لیڈر اشوک گہلوت نے پیر کو جے پور میں کہا تھاکہ ’اگر راہل گاندھی پارٹی صدر نہیں بنتے ہیں تو ملک بھر کے کانگریس کارکنان مایوس ہوں گے۔ لاکھوں کارکنوں کے جذبات کو سمجھتے ہوئے راہل گاندھی کو صدر کا عہدہ قبول کرنا چاہیے‘۔ واضح ہے کہ کانگریس کے زیادہ تر لوگ راہل گاندھی کے نام پر اڑے ہوئے ہیں اور راہل گاندھی صدر کا عہدہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ راہول گاندھی صدر کا عہدہ قبول کرنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں؟
کانگریس کی سیاست کو قریب سے کور کرنے والے سینئر صحافیوں کا ماننا ہے کہ راہل گاندھی کی ہچکچاہٹ کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی اورنگزیب نقشبندی، جنھوں نے برسوں تک کانگریس کو کور کیا۔، کہتے ہیں کہ راہول کی ہچکچاہٹ کے بارے میں جاننے کے لیے ہمیں تھوڑی ماضی اور تھوڑا سے حال پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
2019 کے لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کی شکست کی ذمہ داری لیتے ہوئے راہل گاندھی نے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس وقت انھوں نے چار صفحات پر میحط ایک خط ٹویٹ کیا تھا جس میں کچھ نکات اٹھائے گئے۔
اورنگزیب کا کہنا ہے کہ اس خط میں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دینے کی وجوہات بھی بتائی گئی تھیں اور کچھ اہم امور بھی بتائے گئے تھے۔
مثال کے طور پر اس خط میں انھوں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ اس عمل کے لیے لوک سبھا انتخابات کی شکست کے لیے پارٹی کی توسیع کو طے کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے لوگ اس کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن صدر کے عہدے پر رہتے ہوئے میں ذمہ داری نہ اٹھاؤں اور دوسروں کو ذمہ دار کہوں، یہ درست نہیں ہوگا۔اورنگزیب کہتے ہیں ’یہ واضح تھا کہ ان کے استعفے کے بعد، وہ چاہتے تھے کہ کئی اور ذمہ دار لوگ بھی استعفیٰ دیں۔ لیکن ان کے علاوہ کانگریس کے کسی اور بڑے لیڈر نے استعفیٰ نہیں دیا۔‘
راہل گاندھی نے اس خط میں ایک جگہ لکھا تھا ’میں ذاتی طور پر اپنے پورے جذبے کے ساتھ براہ راست وزیر اعظم، آر ایس ایس اور ان تمام اداروں سے لڑا ہوں جن پر انھوں نے قبضہ کیا ہے۔‘
اورنگزیب کہتے ہیں ’راہل گاندھی نے جس طرح رافیل طیاروں کی خریداری کا مسئلہ جس انداز میں اٹھایا اور الیکشن میں ’چوکیدار چور ہے‘ کو ایشو بنایا، انھیں ان مسائل پر پارٹی کے سینیئر رہنماؤں کی وہ حمایت نہیں ملی۔‘