ہائی کورٹ کے کئی ریٹائرڈ ججوں نے سی جے آئی و صدر سے جمہوریت کی حفاظت کی درخواست کی
نئی دہلی (یو این آئی) مدراس ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس ڈی ہریپرنتھمن سمیت ہائی کورٹ کے دیگر سابق ججوں نے ملک کے صدر، چیف جسٹس (سی جے آئی)، ان کے ساتھی ججوں، الیکشن کمشنر (ای سی آئی) اور ان کے ساتھی الیکشن کمشنرکو ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں ان سے 4 جون کو لوک سبھا کے انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد انتخابی جمہوریت کی حفاظت کرنے کی درخواست کی ہے۔اس خط پر مدراس ہائی کورٹ کے چھ سابق ججوں – جسٹس ڈی ہری پرنھتمن، جسٹس جی ایم اکبر علی، جسٹس پی آر شیوکمار، جسٹس ارونا جگدیسن، جسٹس سی ٹی۔ سیلوم، جسٹس ایس ویملا اور پٹنہ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس انجنا پرکاش نے دستخط کئے ہیں۔
جسٹس ہری پرنھتمن نے پیر کو میڈیا کو بھیجے گئے اپنے کھلے خط میں کہا کہ ہندوستان ایک بہت ہی اہم انتخابی عمل سے گزر رہا ہے جو ملک کی جمہوریت کے مستقبل اور آئین کے وجود کا تعین کر سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ووٹنگ ختم ہو چکی ہے اور 4 جون 2024 کو دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کی پارلیمنٹ کے اٹھارویں عام انتخابات کا آخری باب ہو گا۔
جج نے مزید کہا کہ اس طویل اور وسیع مشق کے دوران ملک کے محنت کش عوام، کسانوں، خواتین اور نوجوانوں نے شدید گرمی میں بھی بڑی تعداد میں قطاروں میں کھڑے ہو کر ہندوستان کی جمہوریت پر اپنے پختہ یقین کا اعادہ کیا ہے۔جسٹس ہری پرنتھمن نے کہا کہ ہم ہائی کورٹ کے سابق ججز جن کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن وہ پارلیمانی انتخابات-2024 کے حوالے سے ملک کے آئین میں درج نظریات اور انتخابی جمہوری اقدار کے لیے پرعزم ہیں۔ حالیہ اور موجودہ پیش رفت پر گہرے درد کا اظہار کرتے ہوئے یہ کھلا خط لکھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریاست میں اعلیٰ عدلیہ، الیکشن کمیشن، چیف الیکٹورل آفیسر اور ریٹرننگ آفیسر آئینی حکام ہیں جنہیں عام شہریوں کا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے انتخابات کے آزادانہ اور منصفانہ انعقاد کی بڑی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتوں میں کئی واقعات بہت سنگین رہے ہیں ۔ ملک کے بیشتر لوگوں کے ذہنوں میں کچھ حقیقی خدشات ہیں، انہی خدشات کا اظہار معروف سول اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں نے بھی کیا ہے۔انہوں نے لکھا کہ الیکشن کمیشن (ای سی آئی) کی جانب سے جس طریقے سے عام انتخابات – 2024 کرائے جا رہے ہیں اور اگر موجودہ حکمران حکومت عوام کے مینڈیٹ سے محروم ہو جاتی ہے اور اقتدار کی منتقلی آسانی سے نہیں ہوتی ہے تو اس پر آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔