کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر مسلم پرسنل لا بورڈ کے کسی عہدیدارکا کوئی ری ایکشن سامنے نہیں آیا
نئی دہلی( ہندوستان ایکسپریس ویب ڈیسک): جنوبی ریاست کرناٹک کی ایک عدالت نے ایک مسلمان لڑکی کی شادی اس بنیاد پر کالعدم قرار دے دی ہے کہ 18 برس سے کم عمر کی لڑکی سے جنسی تعلق قانون کی رو سے جرم ہے اور اس معاملے میں مسلم پرسنل بورڈ کے اپنے قوانین کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ بی بی سی کی اطلاع کے مطابق کرناٹک کی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اگرچہ مسلم پرسنل قوانین کے تحت ماہواری کے لحاظ سے بالغ ہونے والی لڑکی کی شادی کرنے کی اجازت ہے لیکن اگر لڑکی کی عمر 18 برس سے کم ہے، تو وہ قانون کی رو سے نابالغ ہے اور ایسی شادی بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کےقانون کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس بنیاد پر یہ شادی کالعدم قرار دی جاتی ہے۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب گزشتہ جون میں ایک حاملہ مسلمان لڑکی بنگلور کے ایک سرکاری میڈیکل ہیلتھ کیئر سینٹر میں چیک اپ کے لیے گئی۔ جب ڈاکٹر کو معلوم ہوا کہ وہ 17 برس کی ہے، یعنی نابالغ ہے، تو اس نے پولیس کو مطلع کر دیا۔ پولیس نے نابالغ بچوں کی شادی روکنے اور نابالغ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی دفعات کے تحت لڑکی کے شوہر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ ان کے خلاف ایک نابالغ لڑکی سے شادی کرنے اور اسے حاملہ کرنے کا الزام لگایا گیا۔
ملک میں شادی کے لیے لڑکی کی کم سے کم عمر 18 برس اور لڑکے کی عمر 21 برس ہونا لازمی ہے۔ اب قانون میں ترمیم کر کے شادی کے لیے لڑکی کی بھی کم سے کم عمر بڑھا کر 21 سال کر دی گئی ہے۔ لڑکی کے شوہر نے اس مقدمے میں ضمانت کی درخواست داخل کرتے ہوئے دلیل دی کہ مسلم پرسنل لا کے تحت جس لڑکی کو ماہواری شروع ہو چکی ہو، وہ شادی کی مجاز ہے اور 15 سال کی عمر کو سن بلوغت مانا گیا ہے۔ اس نے دلیل دی کہ چونکہ اس معاملے میں لڑکی شادی کے وقت ماہواری کی عمرمیں داخل ہو چکی تھی، اس لیے اس شادی سے چائلڈ میرج ایکٹ کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ تاہم ہائی کورٹ نے ان کی دلیل کو قطعی طور پر مسترد کر دیا اور کہا کہ اس طرح کے معاملات میں نابالغ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی روکنے کا قانون، مسلم پرسنل لا پر حاوی رہے گا۔
پولیس نے نابالغ بچوں کی شادی روکنے اور نابالغ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی دفعات کے تحت لڑکی کے شوہر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ ان کے خلاف ایک نابالغ لڑکی سے شادی کرنے اور اسے حاملہ کرنے کا الزام لگایا گیا۔
عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ لڑکی نے خود اس شادی کی مخالفت نہیں کی تھی اور اس شادی میں اس کی مرضی بھی شامل تھی۔ اس بنیاد پر عدالت عالیہ نے ملزم شوہر کی ضمانت ایک لاکھ روپوں کے ذاتی مچلکوں (بانڈ) پر منظور کر لی۔
کم عمری کی شادی سے متعلق معاملہ کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے گزشتہ 30 ستمبر کو اسی طرح کے ایک مقدمے میں اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ 15 سال یا اس سے زیادہ عمر کی کوئی بھی مسلمان لڑکی اپنی مرضی اور اپنے انتخاب سے کسی بھی لڑکے سے شادی کی مجاز ہے اور ایسی شادی پر 2006 کے بچوں کی شادی روکنے کے قانون کا اطلاق نہیں ہو گا۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن نے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
ملک میں مسلمانوں کے شادی اور وراثت جیسے عائلی معاملات مسلم پرسنل لا کے ضوابط کے تحت طے پاتے ہیں۔ پرسنل لا بورڈ کا موقف یہی رہا ہے کہ اسلامی ضوابط کے مطابق 15 برس یا اس سے زیادہ عمر کی مسلمان لڑکی شادی کی مجاز ہے اور اس پر بچوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق تعزیرات ہند کی دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا ۔
خاص بات یہ بھی ہے مذہبی معاملہ میں عدالت کا یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد ملک کی سب سے بڑی ملی تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ بھی خاموش ہے۔ اس حوالے سے بی بی سی کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے رابطہ کیے جانے کے باوجود کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر مسلم پرسنل لا بورڈ کے کسی عہدیدار کا موقف نہیں مل سکا۔ تاہم سرکردہ ماہر قانون فیضان مصطفی نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا جو قانون ہے وہ سبھی پرسنل لا سے اوپر ہوتا ہے اور اسی کا اطلاق ہو گا۔ ’جہاں تک نابالغ بچوں کی شادی کا تعلق ہے تو آج بھی ملک میں ہر برس لاکھوں نابالغ بچوں اور بچیوں کی شادیاں ہوتی ہیں۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے جس معاملے میں فیصلہ سنایا ہے اسی طرح کے معاملے میں الگ الگ عدالتوں نے الگ فیصلے دیےہیں۔‘ فیضان نے کہا کہ ’اسلام میں بلوغت کی عمر میں بچی کی شادی ہو سکتی ہے لیکن اس کی ایک تشریح یہ بھی دی جاتی ہے کہ بلوغت کا مطلب صرف جسمانی بلوغت نہیں بلکہ ذہنی بلوغت بھی ہے، اس لیے کم سے کم اٹھارہ سال میں لڑکی کی شادی کی جانی چاہئے۔‘ ’ زیادہ تر ملکوں میں شادی کے لیے کم سے کم عمر 18 برس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو معاشرے قانون کی بالادستی سے چلتے ہیں وہاں قانون کا احترام کرنا چاہئیے۔ ‘
’مسلم پرسنل لا بورڈ کو اس پس منظر میں ایک موقف وضع کرنا چاہئیے۔ روایتی موقف اختیار کرنے سے ہمیشہ کام نہیں چلے گا۔ جو اسلامی قانون ہے اس میں کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ کم عمری میں ہی شادی کریں۔ اگر کوئی 21 برس میں شادی کر رہا ہے تو وہ بھی اسلامی قوانین کی رو سے جائز ہے، تو پھر اس کے لیے اصرار کیوں کیا جائے جو قانون کے خلاف ہے۔‘
کم عمری کی شادی کامعاملہ اب سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے جہاں اس پر حتمی فیصلہ ہو گا۔