واشنگٹن(ایجنسیاں)ری پبلکن صدارتی اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن جیتنے کے لیے درکار الیکٹورل ووٹ حاصل کر کے امریکہ کے 47 ویں صدر منتخب ہو گئے ہیں۔وائس آف امریکہ کی گنتی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کو 277 الیکٹورل ووٹ ملے جب کہ صدر بننے کے لیے 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ ڈیمو کریٹک صدارتی اُمیدوار کاملا ہیرس اب تک 224 ووٹ حاصل کر سکی ہیں۔صدارتی انتخاب کے لیے اہم سمجھے جانے والی سوئنگ ریاست وسکونسن میں کامیابی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے 270 کا ہندسہ عبور کیا۔ اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نارتھ کیرولائنا، پینسلوینیا اور جارجیا سے بھی جیت گئے تھے۔دریں اثنابرطانیہ کے وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک باد دی ہے۔سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کیئر اسٹارمر کا کہنا تھا کہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو تاریخی کامیابی پر مبارک باد۔انہوں نے کہا کہ آنے والے برسوں میں برطانیہ اور امریکہ آزادی، جمہوریت اور دیگر امور میں مشترکہ اقدار کے دفاع کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں گے۔ادھراسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو تاریخی واپسی پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ’آپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی امریکہ کے لیے نئی شروعات ہیں‘۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ادھرہندوستانی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک باد دی ہے۔سوشل میڈیا پر ایک بیان میں مودی کا کہنا تھا کہ ’’میں اپنے دوست ڈونلڈ ٹرمپ کو الیکشن میں تاریخی کامیابی پر مبارک باد دینا چاہتا ہوں‘‘۔انہوں نے ٹرمپ کی صدارت کے گزشتہ دور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ مستقبل میں امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی کی امید رکھتے ہیں۔انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی امید کا بھی اظہار کیا۔

یہی نہیں بلکہ چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بھی ٹرمپ کی کامیابی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر کہا کہ امریکہ کے بارے میں چین کی پالیسی مستقل ہے۔بدھ کو نیوز بریفنگ کے دوران ترجمان چینی وزارتِ خارجہ ماؤ ننگ نے کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ باہمی احترام اور امن کے ساتھ جینے کے اُصول پر مبنی تعلقات کے خواہاں ہیں جس میں ہر فریق کی جیت ہو۔
خاص بات یہ بھی ہے کہ روس کی جانب سے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر ردِ عمل سامنے آیا ہے۔خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق کریملن ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ روس کے لیے اب بھی ایک حریف ریاست ہے۔ لہذٰا یہ وقت ہی بتائے گا کہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے بارے میں ٹرمپ کی بیان بازی حقیقت میں بدلتی ہے یا نہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے کچھ نہیں جانتے کہ آیا صدر پوٹن، ٹرمپ کو مبارک باد کا فون کریں گے یا نہیں کیوں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات اس وقت انتہائی نچلی سطح پر ہیں۔

اس بیچ روس کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ اور مغربی ممالک سے مزید تعاون کے خواہاں یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک باد دی ہے۔زیلنسکی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ‘طاقت کے ذریعے امن’ کے حصول کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے یوکرین میں امن کا قیام ممکن ہو سکے گا۔اُن کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو عملی شکل دینے کے لیے امریکہ اور یوکرین مل کر کام کریں گے۔قابل تذکرہ نکتہ یہ بھی ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت نے ٹرمپ کی کامیابی پر اپنے بیان میں اُمید ظاہر کی کہ نئی امریکی انتظامیہ حقیقت پسندانہ اقدامات کرے گی تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ٹھوس پیش رفت ہو۔طالبان وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ اماراتِ اسلامی اور امریکہ کے درمیان دوحہ معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں ہی ہوا تھا جس کے بعد’20 سالہ قبضے کا خاتمہ ہوا تھا‘۔بیان میں کہا گیا ہے کہ امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ خطے اور دنیا میں جاری موجودہ جنگ بالخصوص غزہ اور لبنان میں جاری "ظلم و جارحیت” کے خاتمے میں تعمیری کردار ادا کریں گے۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ٹرمپ کی جیت پر نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کی قیادت میں نیٹو اتحاد کو مزید مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دورِ صدارت کے دوران نیٹو کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اپنے بیانات میں ٹرمپ یہ کہتے رہے ہیں کہ یورپ کے دفاع کے لیے اتحاد زیادہ کچھ کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔
دوسری جانب فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کا کہنا تھا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اسی عزم اور یقین کے ساتھ کام کرنے کے لیے پُرجوش ہیں جس طرح اُن کے پہلے چار سالہ دورِ صدارت میں کیا تھا۔نیزیورپی یونین کمیشن کی سربراہ ارزولا فان ڈیئر لائن نے اپنے تہنتیی پیغام میں ٹرمپ کو مبارکباد دیتے ہوئے امریکہ اور یورپی یونین کی ‘حقیقی شراکت داری’ کی تعریف کی۔ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں یورپی ممالک کی مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنے پر امریکہ اور یورپی یونین کے تعلقات میں سرد مہری آئی تھی۔