نئی دہلی، 09 فروری (یو این آئی) وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے جمعہ کو لوک سبھا میں کہا کہ 2004 سے 2014 کے درمیان متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) حکومت کے دور میں ملک کی معیشت کی حالت ابتر کردی گئی تھی اور اگر وہی حکومت قائم رہی تو بھگوان ہی جانتا ہے کہ ملک کا کیا حال ہوتا۔
دونوں مخلوط حکومتوں کے تحت 2004 سے 2024 کے دوران ہندوستانی معیشت کی تقابلی حیثیت پر پیش کیے گئے وائٹ پیپر پر ایوان میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے محترمہ سیتا رمن نے کہا کہ یہ ایک اہم دستاویز ہے اور اسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ 2010 کی نئی دہلی کامن ویلتھ گیمز کی تیاریوں میں کروڑوں روپے کا گھپلہ ہوا جس کی وجہ سے ہندوستان پوری دنیا میں بدنام ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس وزیر اعظم نریندر مودی نے پورے ملک کو ساتھ لے کر جی 20 کانفرنس کا انعقاد اتنے اچھے انداز میں کیا کہ پوری دنیا میں ہندوستان کی عزت بڑھی۔
انہوں نے کہا کہ یو پی اے حکومت کے دور میں ہونے والے کوئلہ گھپلہ سے ملک کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ یہاں تک کہ گٹکا بنانے والی کمپنیوں کے مالکان کو بھی کول بلاکس کے لائسنس دیے گئے۔ کوئلے کی کان مختص کرنے کا گھپلہ اتنا بڑا تھا کہ سپریم کورٹ کو ایسے 214 لائسنس منسوخ کرنے پڑے۔ انہوں نے کہا کہ حالات اتنے خراب ہوگئے کہ ملک میں کوئلہ وافر مقدار میں ہونے کے باوجود کوئلہ درآمد کرنا پڑا۔
وزیر خزانہ نے کہا، “انہوں نے کوئلے کو راکھ بنایا۔ ہم نے اپنی پالیسیوں سے کوئلے کو ہیرے میں بدل دیا۔محترمہ سیتا رمن نے کہا کہ یو پی اے حکومت کے دور میں بینکوں کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔ الٹے سیدھے قرضے بانٹے گئے۔ سال 2004 سے 2014 تک فون بینکنگ کے ذریعے قرض لینے کا رجحان شروع ہوا، ‘فون گھماو، لون پاو’ کے نظام کی وجہ سے بینکوں کی کمر توڑ دی گئی۔ سفارشی قرضوں کی وجہ سے بینکوں کو بلاک شدہ قرضوں (این پی اے) کا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ 2014 میں جب سے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی حکومت آئی ہے، بینکوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے کام کیے گئے ہیں۔ آج بینک اچھی سطح پر ہیں۔ وہ عوامی فلاح کا سبب بن رہے ہیں۔ بینک حکومت کو ڈیویڈنڈ دے رہے ہیں جس کے ذریعے فلاح عامہ کے منصوبے چلائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت معیشت کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہی ہے اور 2047 تک ترقی یافتہ ہندوستان کا عزم پورا کیا جائے گا۔کانگریس کے منیش تیواری نے اپوزیشن کی جانب سے وائٹ پیپر پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ وائٹ پیپر نہیں ہے بلکہ یہ ایک ‘بلیک برش’ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت ایسے کام کر رہی ہے جیسے ہندوستان کی تاریخ 2014 میں ہی شروع ہوئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ بحث صرف سیاسی مفاد کے لیے کی جا رہی ہے، ایسی دستاویز 2014 میں بھی لائی جا سکتی تھی۔ انہوں نے اس وائٹ پیپر کو سیاسی منشور قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے حکومت کے دور میں بنیادی اقتصادی، سیاسی اور سماجی اصلاحات کی گئیں۔ اس کے ساتھ ہی ملک کو معلومات کے حق، منریگا، مفت تعلیم، خوراک کی حفاظت کے قانونی حقوق ملے اور آدھار کارڈ کی پہل شروع کی گئی جس کے بہت دور رس فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔
مسٹر تیواری نے کہا کہ اگر یہ حکومت نوٹوں کی منسوخی اور اشیا اور خدمات ٹیکس قانون کو غلط طریقے سے نافذ کرنے کو 2014 میں برسراقتدار آنے والی این ڈی اے حکومت کے دور میں کامیابیاں قرار دیتی ہے تو پھر کیا کہا جاسکتا ہے۔ ان دونوں اسکیموں سے چھوٹی صنعتیں تباہ ہو گئیں۔انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ عالمی کساد بازاری کے بعد منموہن سنگھ حکومت نے ملک کو کس طرح سنبھالا۔ این ڈی اے حکومت کے دور میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔مسٹر تیواری نے کہا کہ این ڈی اے حکومت کا دعویٰ ہے کہ سال 2014 سے 2024 کے آغاز تک 25 کروڑ لوگوں کو غربت کی لکیر سے باہر نکالا گیا جبکہ 2004 سے 2014 تک 27 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ منریگا اسکیم جس کو گڑھے کھودنے کی اسکیم بتایا جا رہا تھا، اس کا بجٹ بڑھایا گیا۔انہوں نے کہا کہ یو پی اے حکومت کے دور میں بینکوں پر قرض دینے میں بے قاعدگیوں کی بڑی بڑی باتیں ہو رہی ہیں لیکن کسی بینک افسر یا بورڈ آف ڈائریکٹرز کے کسی رکن کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔وائٹ پیپر کی تجویز پر بحث کرتے ہوئے جنتادل یونائٹیڈ (جے ڈی یو ) کے راجیو رنجن سنگھ نے اس تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں معیشت کو لے کر ابہام کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ اب یہ الجھن دور ہو جائے گی۔ وائٹ پیپر تمام حقائق اور اعداد و شمار کی بنیاد پر لایا گیا ہے۔ اس میں منموہن سنگھ کی حکومت کے دوراقتدار میں کی گئی مالی بدانتظامی پر بات کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ منموہن سنگھ کے ساتھ رہنے والے لوگ گھوٹالوں میں ملوث رہےہیں اور وہ خاموشی اختیار کر رہے ہیں۔
کانگریس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ ملک سے فرار ہونے والے وجے مالیا کو 8,400 کروڑ کا قرض کس کے دور میں دیا گیا؟ نیرو مودی کا گھوٹالہ کس کے دور میں شروع ہوا ؟ ان بدانتظامیوں پر بات کی جائے گی۔ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے ) کے دور حکومت میں ایک بھی اجلاس ایسا نہیں ہوتا تھا جس میں کوئی نیا گھوٹالہ سامنے نہ آیا ہو۔
جے ڈی یو کے لیڈر نے کہا کہ کانگریس حکومت کے دوران منریگا کے تحت اجرت 145 روپے تھی، موجودہ حکومت نے اسے بڑھا کر 204 روپے کر دیا اور بہار میں یہ اجرت 209 روپے ہے۔
بی جے پی کے روی شنکر پرساد نے کہا کہ یہ حکومت کا بہت اہم قدم ہے، اس لیے ملک کو اس کے بارے میں جاننا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس وائٹ پیپر میں اس بات کا موازنہ کیا گیا ہے کہ ملک کی معیشت ہمیں وراثت میں ملی ہے اور ہماری حکومت نے اس کے لیے کیا کیا ہے۔
مسٹر روی شنکر نے کہا کہ گزشتہ 10 برسوں میں ہندوستان بدل گیا ہے۔ ملک کو دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بنا دیا گیا ہے۔ یوپی اے کے دور اقتدار میں معیشت زوال پذیر تھی۔ کورونا جیسی وبا کے باوجود مودی حکومت نے ملک کی معیشت کو بہتر بنانے اور 25 کروڑ لوگوں کو غریبی سے نکالنے کا کام کیا ہے۔
آئی یو ایم ایل کے ای ٹی محمد بشیر نے کہا کہ کسان معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ حکومت سیاسی فائدے کے لیے یہ وائٹ پیپر لائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتراکھنڈ میں جس طرح کے واقعات سامنے آئے ہیں وہ تشویشناک ہے۔ وہاں کی مسجد اور مدرسہ کو مسمار کر دیا گیا ہے ۔