ریاض(ایجنسیاں):چین کے صدر شی جن پنگ سعودی عرب کے تین روزہ دورے کا آغاز کررہے ہیں۔مبصرین کے نزدیک یہ دورہ ریاض کی جانب سے مغربی اتحادیوں کی خواہشات کے برخلاف اپنے مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا اشارہ ہے۔
صدر شی جن پنگ 2016 کے بعد سعودی عرب کا دورہ ان حالات میں کررہے ہیں جب تیل کی پیداوار کم کرنے پر امریکہ اور مغربی ممالک تیل پیداوار کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ سعودی عرب اس تنظیم کی فیصلہ سازی میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ دورہ ولی عہد محمد بن سلمان کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ 2018 میں جمال خشوگی کے قتل کے بعد بین الاقوامی سطح پر پڑنے والے دباؤ سے نکل کر وہ ایک بار پھر عالمی سیاست کے اسٹیج پر فعال ہو گئے ہیں۔خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس دورے کے موقعے پر محمد بن سلمان عرب دنیا کے لیڈر کے طور پر اپنی طاقت کے اظہار کے لیے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے حکمرانوں کو جمع کرکے ایک ’چین عرب‘ سمٹ بھی کرارہے ہیں۔
دورے سے قبل سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ عادل الجبیر نے گزشتہ ماہ عندیہ دیا تھا کہ دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے سمیت خطے کی سیکیورٹی صورتِ حال بھی چینی صدر کے دورے کے ایجنڈے میں شامل ہو گی۔خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق تھنک ٹینک یورشیا گروپ میں مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ کے امور کے ماہر ایہام کامل کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سمجھتا ہے کہ اسے اسٹریٹجک مفادات کی وجہ سے چین کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانا ہوگا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خلیجی ریاستوں کے لیے امریکہ سے تعلقات اہم رہیں گے کیوں کہ وہ اپنی سیکیورٹی کے لیے امریکہ پر انحصار کرتی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب چوں کہ اب اپنی معیشت کو وسعت دینا چاہتا ہے اور تیل پر اپنے اقتصادی انحصار کو دیگر شعبوں میں بھی منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے سعودی عرب کی خارجہ پالیسی اس کے معاشی مفادات متعین کررہی ہے۔کمال ایہام کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں سعودی عرب کے لیے رسک تو ہے کیوں کہ اس کے نتیجے میں امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات میں دوریاں مزید بھی بڑھ سکتی ہیں۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ محمد بن سلمان سوچ سمجھ کر ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔شی جن پنگ ایک ایسے وقت میں سعودی عرب کا دورہ کررہے ہیں جب امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر آچکے ہیں۔ توانائی کی عالمی منڈیوں میں بے یقینی کی فضا ہے کیوں کہ مغربی ممالک روس کی تیل کی قیمتوں کی حد متعین کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش بھی ہے۔خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اپنے دورے میں چینی وفد سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ توانائی، سیکیورٹی اور سرمایہ کاری کے کئی معاہدوں پر دستخط کرے گا۔ان معاہدوں کی باضابطہ تفصیلات بعد میں سامنے آئیں گی تاہم دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کے بارے میں اعداد و شمار سے ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
چین ، سعودی عرب کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ 2021 تک دونوں ممالک کا مشترکہ تجارتی حجم 87 ارب ڈالر سے زیادہ ہوچکا تھا۔ سعودی عرب کے لیے چین کی برآمدات کا سالانہ حجم 30 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ جب کہ چین سعودی عرب سے سالانہ 57 ارب ڈالر کی درآمدات کرتا ہے۔سعودی عرب چین کو تیل کا سب سے بڑا سپلائر ہے۔ چین اپنی تیل کی کل ضروریات کا 18 فی صد سعودی عرب سے حاصل کرتا ہے۔ 2022 کے 10 ماہ کے اعدادوشمار کے مطابق چین نے سعودی عرب سے ساڑھے 55 ارب ڈالر کا تیل خریدا۔ گزشتہ برس چین نے سعودی عرب سے 45 ارب ڈالر سے زائد کا تیل خریدا تھا۔
اس کے علاووہ سعودی عرب کی سرکاری کمپنی آرامکو نے چین کی چھ نجی ریفائنریز کے ساتھ تیل کی فراہمی کے معاہدے کیے ہیں۔
رواں برس آرامکو نے شمال مشرقی چین میں 10 ارب ڈالر کی مالیت سے آئل ریفائنری تعمیر کرنے کے لیے سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا تھا۔ تکمیل کی صورت میں یہ چین میں آرامکو کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہوگی۔