پولس کی وارننگ نظرانداز،ہندو نوجوانوں کو’خون گرم رکھنے‘ اورہتھیار اُٹھانے کادیا گیا مشورہ
پلول: ہریانہ کے نوح میں 31 جولائی کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد نوح-پلول سرحد پر واقع پلول ضلع کے پونڈاری گاوں میں آج’ سرو ہندو سماج‘ کی ایک مہاپنچایت منعقد ہوئی۔ پنچایت کے انعقاد کی اجازت اس شرط پر دی گئی تھی کہ اس میں نفرت انگیز تقریر نہیں کی جائے گی، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ مہاپنچایت کے دوران کچھ لوگوں نے پولیس کی وارننگ کو نظر انداز کرتے ہوئے دھمکیاں دیں۔این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پنچایت میں ایک اسپیکر نے کہا-’ اگر آپ انگلی اٹھائیں گے تو ہم آپ کے ہاتھ کاٹ دیں گے‘۔ مہاپنچایت کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ مقررین کو متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ نفرت انگیز تقاریر نہ کریں، لیکن کچھ لوگوں نے اس پر کان نہیں دھرے۔
مہاپنچایت میں ہریانہ گﺅ رکشک دل کے آچاریہ آزاد شاستری نے اسے’کرو یا مرو‘ کی صورتحال قرار دیا اور آج تک کی خبر کے مطابق انہوںنے نوجوانوں سے ہتھیار اٹھانے کو کہا۔شاستری نے کہا کہ ہمیں میوات میں فوری طور پر 100 ہتھیاروں کا لائسنس لینا چاہئے، بندوق نہیں بلکہ رائفلیں، کیونکہ رائفلیں طویل فاصلے تک گولی چلا سکتی ہیں۔ یہ ’کرو یا مرو‘ کی صورتحال ہے۔ یہ ملک ہندوو¿ں اور مسلمانوں کی بنیاد پر تقسیم ہوا۔ آچاریہ آزاد شاستری نے کہا کہ ایف آئی آر سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ میرے خلاف بھی ایف آئی آرہے لیکن ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے۔نو بھارت ٹائمز کی ویب سائٹ پر جاری خبر کے مطابق اس مہاپنچایت میں تقریباً 5000 لوگ جمع ہوئے اور اشتعال انگیز بیانات دیے گئے۔ اس دوران ہریانہ گﺅ رکشک دل کے لیڈر آچاریہ آزاد شاستری نے اشتعال انگیز اور متنازعہ بیان دے کر ماحول کو گرما دیا۔انہوںنے کہا کہ’ میں نوجوانوں سے کہہ رہا ہوں کہ خون کو گرم رکھنا ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا’گاندھی جی کی وجہ سے ہی یہ مسلمان میوات میں رہے‘۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ مہاپنچایت میں تشدد کے متاثرین کو انصاف دلانے اور 28 اگست کو دوبارہ جل ابھیشیک یاترا شروع کرنے کےلئے بحث ہوئی تھی۔ مہاپنچایت کے پیش نظر ہریانہ پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بڑی تعداد کو تعینات کیا گیا تھا۔قبل ازیںپلول کے ایس پی لوکندر سنگھ نے بتایا کہ ہم نے کئی شرائط کے ساتھ اجازت دی۔ کوئی نفرت انگیز تقریر نہیں کرے گا۔ اگر نفرت انگیز تقریر کی گئی تو ہم فوری طور پر مقدمہ درج کریں گے۔ کوئی ہتھیار یا لاٹھی-ڈنڈے یا آتش گیر مواد ساتھ نہیں لائے گا۔ خبروں کے مطابق500 لوگوں کےلئے پروگرام کی اجازت دی گئی تھی، اور دوپہر 2 بجے تک کا وقت دیا گیا تھا۔اس مہاپنچایت کے حوالے سے سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔
ذہن نشیں رہے کہ نوح کے حالات کو دیکھتے ہوئے پولس نے مہاپنچایت کی اجازت نہیں دی تھی۔ 31 جولائی کو مسلم اکثریتی نوح میں ہجوم کے ذریعہ وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی برج منڈل یاترا پر حملہ کرنے کے بعد جھڑپوں میں دو ہوم گارڈز اور ایک امام سمیت چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ دہلی سے متصل گروگرام میں بھی تشدد کے واقعات دیکھے گئے۔ہریانہ حکومت نے جمعہ کی شام کو ضلع نوح میں موبائیل انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات کی معطلی کو 13 اگست کی رات 11.59 بجے تک بڑھا دیا تھاتاکہ امن و امان کی خرابی اور امن عامہ کو خراب ہونے سے روکا جا سکے۔ ضلع نوح میں پہلے جمعہ کی رات 11.59 تک انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سروسز پر پابندی عائد کر دی گئی۔ہریانہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری (ہوم) کی طرف سے جمعہ کو جاری کردہ ایک حکم نامہ میں کہا گیاتھاکہ’یہ میرے نوٹس میں نوح کے ڈپٹی کمشنر نے لایا ہے کہ ضلع میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے اور صورت حال اب بھی سنگین اور کشیدہ ہے‘۔بتادیں کہ اس ماہ کے شروع میں ہریانہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں کل 393 لوگوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور 118 دیگر کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وج نے جمعہ کو ایک بیان میں کہاتھا کہ ہریانہ کے نوح، گروگرام، فرید آباد، پلول، ریواڑی، پانی پت، بھیوانی اور حصار میں 160 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔نوح کے پولیس سپرنٹنڈنٹ نریندر بجارنیا نے کہا کہ برج منڈل تشدد کیس کے سلسلے میں ضلع میں 59 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، اور 218 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ عوام بغیر اجازت کوئی جلوس یا ریلی نہ نکالیں۔