معروف محقق اور پروفیسر سید عرفان حبیب نے اپنی نئی تصنیف سے متعلق پروگرام کے دوران کہی یہ بات
نئی دہلی: سینٹر فار اسٹڈیز آف پلورل سوسائٹیز نئی دہلی کے زیر اہتمام ایک مذاکرے میں معروف محقق اور پروفیسر سید عرفان حبیب نے اپنی نئی تصنیف مولانا ابوالکلام آزاد پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تاریخ نویسی ایک سیاسی ایجنڈہ بن گیا ہے جس میں موجود سیاسی بیانیہ کو فروغ دینا فن تاریخ کے مطالعے سے زیادہ اہم ہو گیا ہے.انہوں نے یاد دلایا کہ جادو ناتھ سرکار جیسے مورخین جو اپنے شدت پسند نظریات کے لیے معروف تھے لیکن انہوں نے فن تاریخ کے آداب مطالعہ کا پوری ایمانداری سے لحاظ رکھتے تھے، پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مولانا ابو الکلام آزاد کے خیالات اور نظریات کا قومی اور ملی حافظے سے آہستہ آہستہ ختم ہونا افسوس ناک ہے، ایک طرف مسلمانوں کی طرف سے مولانا آزاد کو فراموش کیا جارہا ہے ساتھ ہی قومی سیاست میں بھی انکے ساتھ ناانصافی جاری ہے، مولانا آزاد ایک ایسی شخصیت کے حامل تھے جنکے یہاں غیر معملی تنوع بھی تھا اور گہرائی بھی، مولانا آزاد جہاں تسلیم شدہ مفسر قرآن تھے وہیں سیاست اور سیاسی نظریہ کے ماہر بھی، اور اپنی سیاسی بصیرت کی بنیاد پر انہوں نے دو قومی نظریہ کو شدت سے رد کیا اور پورے ہندوستان کو انکے تمام مذاھب اور مسالک، زبانوں اور نسلوں پر مشتمل ایک ملت اور امت کے طور پر پیش کیا۔
اس موقع پر دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر عمر فاروقی نے مولانا آزاد کے فکری ارتقاء پر تفصیلی روشنی ڈالی اور بتایا کہ کیسے انہوں نے اس زمانے پوری شدت سے وہابی طرز فکر کی مخالفت کی اور اس اسلام کی ترجمانی کی جو استعماری قوتوں کے خلاف مضبوطی سے کھڑا تھا، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ڈاکٹر عامر علی نے اپنے تجزیہ میں کہا کہ مولانا آزاد کی شخصیت میں وہ تمام عناصر موجود تھے جو انہیں عصر حاضر کا سب سے ممتاز اسلامی مفکر کے ساتھ ممتاز سیاسی مفکر بھی بناتے تھے اور اس لیے انہوں نے وہ شاندار مضمون تحریر فرمایا جس میں انہوں نے نہرو اور گاندھی سمیت دیگر قومی رہنماؤں کی تنقید کرتے ہوئے نشاندھی کری کہ اگر یہ حضرات تھوڑی اور کوشش اور اخلاص دکھاتے تو تقسیم ہند کا سانحہ روکا جا سکتا تھا، مذاکرے کا انعقاد دہلی کی معروف آر کے آرٹ گیلری میں ہوا جہاں سی ایس پی ایس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عمیر انس نے مقررین کا استقبال کیا اور ڈاکٹر شیبا ناز نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا، اس موقع پر آرٹ گیلری کے محمد راغب نے مہمانوں کا گلدستے دیکر استقبال کیا، مذاکرے میں بڑی تعداد میں اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز شریک ہوئے.