نئی دہلی (یو این آئی) سپریم کورٹ نے انڈر گریجویٹ میڈیکل اور دیگر کورسز میں داخلے کے لیے 5 مئی کو منعقد ہونے والے قومی اہلیت کم داخلہ ٹیسٹ (نیٹ -یوجی) 2024 کے ایک متنازعہ سوال کا صحیح جواب جاننے کےلئے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی)، دہلی کے ڈائریکٹر کو فزکس مضمون کے ماہرین کی تین رکنی کمیٹی تشکیل دینے کی پیر کو ہدایت دی۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے آئی آئی ٹی کے ڈائریکٹر کو فوری طور پر ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت دی۔ عدالت نے ماہرین کی جانب سے متبادل جواب پر دی گئی رائے کو 23 جولائی بروز منگل 12 بجے تک عدالت میں پیش کرنے سے متعلق حکم دیا۔
بنچ نے یہ حکم اس لیے جاری کیا کیونکہ کچھ عرضی گزاروں نے دلیل دی کہ پرانے این سی ای آر ٹی کے نصاب کے مطابق ایک آپشن درست ہے، لیکن این سی ای آر ٹی کے نئے نصاب میں دوسرا آپشن درست بتایا گیا ہے۔ درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی نے دونوں آپشنز کو درست سمجھا ہے۔بنچ نے نیٹ امتحان کے دوبارہ انعقاد کے حق میں اور اس کے خلاف گھنٹوں تک مختلف عرضی گزاروں کے کئی وکلاء کی دلیلیں سننے کے بعد یہ حکم جاری کیا۔سماعت کے دوران، بنچ نے نیٹ یوجی کی پانچ مئی کو متنازعہ امتحان کے سیٹ ایس 3 کے فزکس سبجیکٹ سیکشن کے سوال نمبر 19 کے چار آپشنزمیں سے دو درست جوابات کا اعلان کرنے کے نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کے فیصلے پرکچھ درخواست گزاروں کی جانب سے اٹھنے والے سوالات پر متعلقہ فریقوں کے دلائل سننے کے بعد یہ حکم جاری کیا۔
بنچ کی صدارت کر رہے جسٹس چندر چوڑ نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار جنرل سے کہا کہ وہ فوری طور پر آئی آئی ٹی دہلی کے ڈائریکٹر کو عدالت کے اس حکم کے بارے میں مطلع کریں، تاکہ اس حکم کو تیزی سے نافذ کیا جا سکے۔
سپریم کورٹ منگل کو بھی لاکھوں طلباء کے مستقبل سے متعلق معاملے کو جاری رکھے گی۔
سماعت کے دوران، عرضی گزاروں نے دوبارہ امتحان کے لئے ہدایت دینے کی مانگ کرتے ہوئے دعوی کیا کہ نیٹ یوجی امتحان بغیر کسی مقررہ طریقہ کار کی پیروی کے منعقد کیا گیا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مکمل ‘سسٹمک فیلیئر’ تھا اور کسی بھی جگہ درخواست گزاروں کے پتے کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔ تمام جگہوں پر سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے مانیٹرنگ بھی نہیں کی گئی تھی۔کچھ عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے سینئر ایڈوکیٹ نریندر ہڈا نے عدالت کے سامنے دلیل دی کہ سوائی مادھوپور میں غلط سوالیہ پرچہ تقسیم کیا گیا تھا، لیکن کوئی لائیو مانیٹرنگ نہیں تھی۔ سوشل میڈیا پر انہیں غلط سوالیہ پرچہ کے بارے میں پتہ چلا۔
بنچ کے سامنے، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کی پیروی کرتے ہوئے این ٹی اے نے رول نمبر کے بغیر مکمل فہرست شائع کی، لیکن کوئی آل انڈیا رینک نہیں دیا گیا ہے۔مسٹر ہڈا نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ بیان ریکارڈ کرنے کے بعد بہار پولیس کی جانچ میں پتہ چلا کہ سوالیہ پرچہ 4 مئی کو عام ہوا تھا۔بنچ نے کہا کہ ملزمان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے طلباء 4 مئی کی شام کو یاد کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ نیٹ یوجی 2024 کا سوالیہ پرچہ 4 مئی سے پہلے عام ہواتھا۔عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ ای-رکشا کے ذریعے لے جایاگیا سوالیہ پرچہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے، لیکن تقسیم کی گئی تصویر ‘او ایم آر شیٹ’ کی تھی، نہ کہ سوالیہ پیپر کی۔
مسٹر ہڈا نے دوبارہ امتحان پرزور دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پورے امتحان کے انعقاد کا طریقہ اعتماد پیدا نہیں کرتا۔ ہر سطح پر سوالیہ پرچہ عام ہونے کا امکان تھا، انہوں نے اعتراف کیا کہ ایسا ہوا تھا اور اسے واٹس ایپ پرپھیلایا گیا تھا۔قابل ذکر ہے کہ 18 جولائی کو سپریم کورٹ نے این ٹی اے کو کچھ شفافیت کے لیے نیٹ یوجی امتحانات میں طلباء کے ذریعہ حاصل کردہ نمبروں کو امتحانی مرکز اور شہر کی سطح پر ہفتہ 20 جولائی 12 بجے دن تک اپنی ویب سائٹ پر شائع کرنے کی ہدایت دی تھی۔