نئی دہلی (یو این آئی) مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے کہا ہے کہ ملک میں غیر قانونی تارکین وطن کا درست ڈیٹا اکٹھا کرنا ممکن نہیں ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ کے سکریٹری اجے کمار بھلا نے حلف نامہ داخل کرکے کہا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن بغیر کسی جائز سفری دستاویز کے خفیہ طور پر ملک میں داخل ہوتے ہیں۔حکومت نے عدالت عظمیٰ کے 7 دسمبر کے حکم پر داخل کردہ حلف نامہ میں کہا، "ایسے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کا پتہ لگانا، انہيں حراست میں لینا اور ملک بدر کرنا ایک پیچیدہ مگر جاری عمل ہے۔”
تاہم، 2017 اور 2022 کے درمیان، کل 14,346 غیر ملکیوں کو مقررہ میعاد سے زیادہ قیام، ویزا کی خلاف ورزی، غیر قانونی داخلے وغیرہ جیسی وجوہات کی بنا پر ملک بدر کیا گیا۔حلف نامہ کے مطابق یکم جنوری 1966 سے 25 مارچ 1971 کے درمیان ملک میں داخل ہونے والے کل 32,381 افراد کو فارنر (ٹربیونل) آرڈر 1964 کے تحت 31 اکتوبر 2023 تک غیر ملکی قرار دیا گیا ہے۔حلف نامے کے مطابق یکم جنوری 1966 سے 25 مارچ 1971 کے درمیان آسام میں پہنچنے والے 17,861 لوگوں کو شہریت دی گئی۔بین الاقوامی سرحد پر باڑ لگانے کے سوال پر، حکومت نے کہا کہ پوری ہند-بنگلہ دیش سرحد پر تقریباً 81.5 فیصد باڑ لگانے کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ اسی طرح تقریباً 28.2 فیصد (ندی/نالہ گیپ وغیرہ) مکمل ہو چکا ہے۔حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ آسام مین بنگلہ دیش کے ساتھ تقریباً 263 کلومیٹر طویل بین الاقوامی سرحد متصل ہے، جس میں سے تقریباً 210 کلومیٹر میں باڑ لگی ہوئی ہے۔ باقی غیر قابل عمل دوری کو تکنیکی حل کے ذریعہ احاطہ کیا گیا ہے۔ مغربی بنگال کی بنگلہ دیش کے ساتھ تقریباً 2216.7 کلومیٹر طویل سرحد متصل ہے، جس میں سے 78 فیصد دوری پر باڑ لگا دی گئی ہے۔ 435.504 کلومیٹر کی ممکنہ لمبی سرحد پر باڑ لگانا باقی ہے۔ ان میں سے تقریباً 286.35 کلو میٹر کا کام زمین کے حصول کی وجہ سے زیر التواء ہے۔
حلف نامے میں مرکزی حکومت نے مغربی بنگال کی حکومت پر اس معاملے کو حل کرنے میں تعاون نہ کرنے کا الزام بھی لگایا۔
حکومت نے کہا، "مغربی بنگال کی حکومت سرحد پر باڑ لگانے جیسے قومی سلامتی کے منصوبے کے لیے بھی بہت سست، زیادہ پیچیدہ زمین کی خریداری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ زمین کے مختلف مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں ریاستی حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے کام زیر التواء ہے۔ ان کے مطابق زمین کے حصول میں کافی تاخیر ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے مغربی بنگال میں ہند- بنگلہ دیش سرحد پر باڑ لگانے کے کام کو بروقت مکمل کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ "
سپریم کورٹ نے 7 دسمبر کو مرکزی حکومت سے کہا تھا کہ وہ 25 مارچ 1971 کے بعد آسام اور دیگر شمال مشرقی ریاستوں میں غیر قانونی تارکین وطن کی تخمینہ تعداد کی تفصیلات پیش کرے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے آسام معاہدے کے بعد شہریت ایکٹ 1955 کی دفعہ 6A کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کے بعد 7 دسمبر کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔