تہران، یکم اگست (یو این آئی/ایجنسیاں) فلسطین کی آزادی کی داعی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کا جسد خاکی قطر کے دارالحکومت دوحہ منتقل کیا جارہاہے، جہاں ان کی نماز جنازہ آج نماز جمعہ کے بعد امام محمد بن عبدالوہاب مسجد میں ادا کی جائے گی اوریہیں ان کی تدفین بھی ہوگی۔قبل ازیں شہید اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ادا کر دی گئی۔گزشتہ روز ایران میں میزائل حملے میں شہید کیے جانے والے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ تہران یونیورسٹی میں ادا کر دی گئی۔
ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ جس میں خواتین سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ایرانی میڈیا رپورٹ کے مطابق نماز جنازہ کے بعد اسماعیل ہنیہ کا جسد خاکی قطر کے دارالحکومت دوحہ منتقل کیا جارہاہے، جہاں ان کی نماز جنازہ آج نماز جمعہ کے بعد امام محمد بن عبدالوہاب مسجد میں ادا کی جائے گی اوریہیں ان کی تدفین بھی ہوگی۔یاد رہے کہ گزشتہ روز ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو میزائل حملے میں شہید کر دیا گیا تھا۔ وہ ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلیے تہران گئے تھے، حملے میں اسماعیل ہنیہ کا ایک محافظ بھی شہید ہوااسماعیل ہنیہ کی شہادت سے قبل ان کے خاندان کے 70 اراکین اسرائیلی حملوں میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
اس درمیان ایک حیران کرنے والی خبر میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ حماس کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کو ہلاک کرنے کے لیے بارودی اسلحہ اسمگل کر کے تہران لایا گیا تھا۔ جسے اسماعیل ھنیہ کے ٹھہرنے والے ‘گیسٹ ہاؤس’ میں پہلے ہی محفوظ کر دیا گیا تھا۔ اس امر کا انکشاف ‘نیو یارک ٹائمز’ نے جمعرات کو شائع ہونے والی رپورٹ میں کیا ہے۔یہ رپورٹ پچھلے مہینوں میں ہونے والے واقعات کی تحقیقات پر مبنی ہے۔ تاہم ‘نیو یارک ٹائمز’ کی اس رپورٹ میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی مدد کرنے والے کسی ملک کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
البتہ یہ بات اہم ہے کہ ‘نیو یارک ٹائمز’ نے یہ رپورٹ امریکی اور ‘مشرق وسطیٰ’ کے حکام کی ہی مدد سے تیار کی ہے۔رپورٹ کے مطابق اسماعیل ھنیہ کو ہلاک کرنے کے لیے بم دو ماہ پہلے رکھ دیے گئے تھے۔ ان میں ریمورٹ کنٹرول سے چلنے والا بم بھی موجود تھا۔ جو یہ کنفرم کرنے کے بعد چلایا گیا کہ اسماعیل ھنیہ اب کمرے میں موجود ہیں۔مذکورہ ‘گیسٹ ہاؤس’ تہران میں شمالی حصے کی طرف واقع ہے۔ ‘گیسٹ ہاؤس’ کے اس حصے کو نشاط کا نام دیا گیا ہے اور یہ پاسداران انقلاب کور کی حفاظت میں رہنے والا ‘گیسٹ ہاؤس’ ہے۔
‘نیو یارک ٹائمز’ کی رپورٹ کے مطابق اسماعیل ھنیہ کئی بار پہلے بھی اس ‘گیسٹ ہاؤس’ میں مقیم رہ چکے تھے۔ امریکی حکام سمجھتے ہیں کہ اس کارروائی کے پیچھے اسرائیلی حکام ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس حکام نے امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کی حکومتوں کو اس واقعے کے فوری بعد بریف کر دیا تھا۔ تاہم رپورٹ میں یہ ذکر نہیں ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس نے ایرانی گیسٹ ہاؤس میں بارود رکھوانے کی جو کارروائی دو ماہ پہلے کی تھی، اس کے بارے میں اپنے متعلقہ اتحادی ملکوں کو اگر بریف کیا تھا تو کب کیا تھا۔
نیز یہ بھی رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس چیف اس دورانیے میں اپنے کس کس اتحادی ملکوں کے انٹیلی جنس سربراہان کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں۔’نیو یارک ٹائمز’ کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تین ایرانی حکام نے اس واقعے کو ایرانی انٹیلی جنس کی تباہ کن ناکامی اور غیر معمولی شرمندگی کا باعث قرار دیا ہے۔ کیونکہ اس کمپاؤنڈ کو ایران کی پاسداران انقلاب کور بار بار خفیہ اجلاسوں کے لیے استعمال میں لاتی ہے۔