نئی دہلی(پریس ریلیز) اسلام میں کسی غم یا برسی منانے کا تصور نہیں پایا جاتا اور اگرغم کے اظہار کی گنجائش ہے تو اس کے احکام وآداب بتائے گئے ہیں اور ان احکامات سے تجاوز کرنا جائز نہیں ہے،لیکن کچھ زخم اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ ان کو بھلا پانا آسان نہیں ہوتا۔ 1528ء سے 1992ء تک 464سال کی ایک لمبی مدت تک بابری مسجد کا اپنے وجود کے ساتھ قائم رہنا اس کے مسجد ہونے کی سب سے قوی دلیل ہے لیکن اب سے 32سال قبل ملک میں فضا خراب کرکے اسے منہدم کردیا گیا۔ مسجد کے انہدام سے قبل بھی اوراس کے انہدام کے بعد بھی مسلمانوں کی عملی صورت حال اور شریعت اسلامیہ کی حقیقی پیروی کی کیفیت تشویش ناک رہی ہے، دین کے نام پر خرافات کو انجام دینا، مصائب کے وقت بھی بدعات کوانجام دیتے رہنا بلکہ جدید بدعات کا ایجاد، اللہ تعالیٰ سے اپنے رشتہ کو مضبوط بنانے کے بجائے اسے ناراض رکھنا اورمخلوق کی خوشنودی کے لیے ساری حدیں پھلانگ جانا وغیرہ وہ حساس مسائل ہیں جن پر ہر مسلمان کو گہرائی کے ساتھ غور وتدبر کرنا چاہیے۔
ان خیالات کا اظہار ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر، نئی دہلی کے صدر مولانا محمد رحمانی سنابلی مدنی حفظہ اللہ نے سنٹر کی جامع مسجد ابوبکر صدیق، جوگابائی، نئی دہلی میں خطبہ جمعہ کے دوران کیا۔ مولانا مساجد کی اہمیت اوراس سے متعلق مسلمانوں کی ذمہ داریوں نیز مساجد کوآباد کرنے والوں کی بعض اہم صفات پر گفتگو فرمارہے تھے۔ مولانا نے سورہ توبہ کی دو آیات کا تذکرہ کیا جس میں اللہ رب العالمین نے فرمایا ہے کہ ان مسجدوں کوآباد کرنے والے در حقیقت وہ لوگ ہیں جواللہ تعالیٰ پر ایمان کا حق ادا کرتے ہیں اور یوم آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہیں نیز نماز قائم کرتے ہیں۔ ان تین صفات کے ذریعہ ان کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے اس کے بعد فرمایا کہ وہ اللہ سے رشتہ مضبوط کرنے کے بعد بندوں کے حقوق کا بھی خیال رکھتے ہیں اوراپنے مال میں زکاۃ نکالنے کا اہتمام کرتے ہیں اوراللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ اللہ تعا لیٰ نے ان صفات کے حاملین کوہدایت کی بشارت سنائی ہے پھر اگلی آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا کہ کیا تم حاجیوں کوپانی پلانے اور مسجد حرام کی تعمیر کو اللہ تعالیٰ اوریوم آخرت نیز اللہ کے راستہ میں جہاد کے برابر سمجھتے ہو، یہ اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہوسکتے۔ مولانا نے فرمایا کہ اگر پہلی آیت کریمہ کے تناظر میں پانچ صفات کا مسلمانوں میں جائزہ لیا جائے تو عموما مسلمانوں کے یہاں اس سلسلہ میں کوتاہی نظر آئے گی بلکہ بہت سے مکاتب فکر نے ان حقائق ہی کو بدل ڈالا ہے اورمجرمانہ تحریف کرکے دین کی غلط تعبیر دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں جبکہ دوسری آیت کریمہ کے مطابق صورت حال یہ ہے کہ بہت سے مسلمان ایمان اورعقائد کا اہتمام کیے بغیر محض خدمت خلق کا ڈھونگ اوراسی بہانہ سے اپنی جیبیں بھرنے کا کام کر تے ہیں اورمسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ انہیں اپنا ہیرو تصور کرتا ہے جبکہ وہ اللہ اور یوم آخرت پرایمان اور جہاد کے فریضہ سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔
خطیب محترم نے ابراہیم ادھم رحمہ اللہ کا ایک قول بھی ذکر کیا جس میں انہوں نے دعا کے قبول نہ ہونے کے دس اسباب کا ذکر فرمایا ہے۔ اللہ کو پہچاننے کے باوجود اس کے حقوق سے غفلت، نبی سے محبت کا دعوی کرنے کے باوجود سنت رسول سے دوری، قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام لیکن اس پر عمل نہ کرنا، اللہ کی نعمتوں پر شکر گزاری نہ کرنا، شیطان سے دشمنی کے اظہار کے باوجود اس کی پیروی، جنت اور جہنم کے حق ہونے کے باوجود اس کے لیے تیاری نہ کرنا، اور بچنے کی تدابیر اختیار نہ کرنا، موت کی حقیقت کوجاننے کے باوجود اس کے لیے تیاری نہ کرنا، اپنے عیوب کے بجائے دوسروں کے عیوب کوتلاش کرنا اور اپنی میت کی تدفین کرنے کا اہتمام کرنا لیکن ا س سے عبرت نہ پکڑنا وغیرہ۔
مولانا رحمانی نے فرمایا کہ مسلم علاقوں میں مساجد کے حقوق سے متعلق جوغفلت ہے وہ تشویش ناک ہے، بہت سے افراد نماز کا اہتمام نہیں کرتے لیکن مساجد کو پیشاب اور قضائے حاجت کے لیے استعمال کرنے کی تاک میں بیٹھے رہتے ہیں، تحیۃ المسجد کا اہتمام مفقود ہے اور مساجد سے بدعات وخرافات کی دعوت دی جارہی ہے، ابھی یوم تکبیر کے نام سے نئی بدعت کی ابتدا ہوئی ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سنت کو زندہ کریں، مساجد کے حقوق کا خیال رکھیں اور ہر قسم کے فساد سے اپنی دنیا اور اپنے دین کوتحفظ فراہم کریں۔
مولانا نے ملک کے ذمہ داران سے اپیل کی کہ ملک میں قانون شکنی کوبڑھنے نہ دیا جائے اور آئے دن مساجد کونشانہ بنانے، اقلیات کے جذبات سے کھیلنے، قانون کی بالادستی کوکمزور کرنے کی جوشکلیں پنپ رہی ہیں ان سے سختی کے ساتھ نپٹا جائے اورمسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ دین حنیف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں اورغیر مسلموں کے حقوق اور اقلیت کی حیثیت سے ملک میں زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی سیکھیں اور مسائل کو اولا بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی سعی کریں۔ اخیر میں دین کی طرف رجوع کی اپیل اوردعائیہ کلمات پر خطبہ ختم ہوا۔