علی گڑھ: آزادی کا امرت مہوتسو اور جی 20 پروگراموں کے ایک حصے کے طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی فیکلٹی آف لاء میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے جج جسٹس کرشن مراری نے ’سپریم کورٹ اور ہندوستانی آئین کا ارتقا‘ موضوع پر ایک خصوصی لیکچر دیا۔ بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب میں جسٹس مراری نے سرسید احمد خاں اور جسٹس سید محمود کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور انہیں ’تعلیم کا پیغامبر‘ اور اے ایم یو میں قانون کی تعلیم کا علمبردار قرار دیا۔ انہوں نے رفیع احمد قدوائی، بیرسٹر چودھری حیدر حسین، قاضی سید کریم الدین اور حسرت موہانی سمیت دستور ساز اسمبلی کے مختلف ارکان کی خدمات کا بھی ذکر کیا اور قوم کی تعمیر میں سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین اور سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری سمیت اے ایم یو کے متعدد سابق طلباء کے تعاون کا اعتراف کیا۔ جسٹس مراری نے سپریم کورٹ آف انڈیا اور اس کی ماقبل کی عدالتوں بشمول فیڈرل کورٹ اور پریوی کونسل کے تاریخی ارتقاء پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے ہندوستانی آئین کے مقاصد اور سپریم کورٹ کے تشریحی اختیارات پر خاص طور پر آرٹیکل 21 کے حوالے سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے اے کے گوپالن بنام ریاست مدراس، مینکا گاندھی بنام یونین آف انڈیا، گولکناتھ بنام ریاست پنجاب ، اور کیشوانند بھارتی جیسے تاریخی مقدمات و فیصلوں کا ذکر کیا، جس نے بیسک اسٹرکچر کے اصول کو متعارف کرایا۔ انہوں نے بار کے ممبران، خاص طور سے ہندوستان کے پہلے اٹارنی جنرل ایم سی سیتلواڈ کی خدمات کو بھی سراہا۔ کیشوانند بھارتی کیس میں جسٹس حمید اللہ بیگ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین ہند کی تمہید اور حصہ سوم و چہارم کے التزامات سے یہ واضح ہے کہ یہ اصول اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمارے آئین میں ملک کے عوام کی بہتری کے قانون کو فوقیت حاصل ہے ، جس کی ابتدا اس تمہید سے ہوتی ہے جو آئین کے چار اہداف میں سے ’انصاف، سماجی، معاشی اور سیاسی‘ کو اولیت دیتا ہے۔ انہوں نے طلباء پر زور دیا کہ وہ مادر وطن کے حقیقی سپوتوں سے تحریک لیں اور اس بات کا اعادہ کیا کہ بار کو اپنے مشعل بردار کے طور پر نوجوان اور باصلاحیت ذہنوں کی ضرورت ہے۔ قانون کے میدان میں وقت کی پابندی اور ایمانداری کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانونی چارہ جوئی کے میدان میں ابتدائی ایام ہنگامہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اگر کوئی اسے اچھی طرح برتنے کا سلیقہ اور طریقہ سیکھ لے تو آنے والا مستقبل روشن ہوگا اور اس کی کوئی حد نہیں ہوگی۔ انہوں نے طلباء کو پڑھنے کی عادت ڈالنے کا مشورہ دیا۔
قبل ازیں مہمان خصوصی کا خیرمقدم کرتے ہوئے پروفیسر محمد ظفر محفوظ نعمانی، ڈین، فیکلٹی آف لاء نے فیکلٹی کے تاریخی ارتقاء پر روشنی ڈالی اور یہاں سے نکلنے والے سرکردہ افراد کا ذکر کیا جن میں جسٹس سید محمود، جسٹس سر شاہ سلیمان، جسٹس مرتضیٰ فضل علی، جسٹس بحر الاسلام اور جسٹس آر پی سیٹھی شامل ہیں۔ انہوں نے دو حالیہ فیصلوں کا بھی ذکر کیا جن میں جسٹس کرشن مراری بنچ کا حصہ تھے۔ اس میں ایک فیصلہ ہمارے ملک کے وفاقی ڈھانچہ اور دوہری سیاست سے متعلق ہے جس کے مرکز میں دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات کا معاملہ تھا، اور دوسرافیصلہ مہاراشٹر حکومت کے فلور ٹیسٹ سے متعلق ہے۔
پروفیسر نعمانی نے کہا کہ مہاراشٹر کا فیصلہ، کیشوانند بھارتی بنام ریاست کیرالہ، ہر گووند پنت بنام رگھوکل تلک اور ایس آر بومائی بنام یونین آف انڈیا کے بعد تاریخی فیصلوں میں سے ایک ہے جس نے مستقبل کے لئے ہندوستانی سیاست کے لئے ایک راہ طے کردی ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس آدتیہ ناتھ متل نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ ہندوستانی آئین کی سب سے پرکشش دفعہ آرٹیکل 21 ہے جس کی تشریح اے کے گوپالن بنام مینیکا گاندھی کیس میں کی گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آزادی کے حق کو قانون کے طے کردہ طریقہ کار کے ذریعے محدود کرنا ہوگا۔شعبہ قانون کے چیئرمین پروفیسر محمد اشرف نے شکریہ کے کلمات ادا کئے۔تانیا پانڈے اور مہ لقا ابرار نے پروگرام کی نظامت کی۔پروگرام کے بعد جسٹس مراری نے یونیورسٹی کی تاریخی عمارتوں کا دورہ کیا اوریونیورسٹی جامع مسجد کے احاطے میں بانی درسگاہ سر سید احمد خاں کی مزار پر حاضری دے کر انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔