علی گڑھ، 13 مئی: شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے رشید احمد صدیقی آڈیٹوریم میں ایک خصوصی شعری نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر قمر الہدی فریدی نے کہا کہ شعبہ میں اس طرح کی محفلوں کا اہتمام وقتا فوقتا اس لیے کیا جاتاہے تاکہ طلباء کا شعری ذوق پروان چڑھے اور ان کو آداب محفل کا بھی علم ہو، جہاں علم و ادب کی دنیا کے آفتاب و ماہتاب اپنی تخلیق پیش کرتے ہیں،تو سننے والے بھی اسی طرح اعلیٰ شعری ذوق رکھتے ہیں۔
پروفیسر قمر الہدی فریدی نے کہاکہ شعر کے معنی قاری کی سمجھ پر منحصر ہوتے ہیں، آل احمد سرور کے الفاظ میں الفاظ کائنات ہیں جن سے شعر وجود میں آتاہے جن کی تفہیم قاری اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں۔ادب میں شعر کی تخلیق کے بعد وہ شاعر کا نہیں رہ جاتا بلکہ وہ قاری کا ہوجاتاہے۔ انہوں نے کہا کہ کلاس میں متن کے جو معنی بتایے جاتے ہیں وہ طلبا کی تربیت کے لیے ہوتے ہیں۔صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے کہا کہ یہ محفل صرف اشعار خوانی یا اشعار کی سماعت کے لیے نہیں ہے بلکہ یہاں ہونے والے سوالات و جوابات سے شاعری کے ساتھ ہی تنقید کو بھی فروغ ملتا ہے۔ طلبا کو ان مواقع سے خاص طور پر استفادہ کرنا چاہیے۔اس موقع پر پروفیسر مہتاب حیدر نقوی، عالم خورشید، پروفیسرسید سراج الدین اجملی، ڈاکٹر معید رشیدی اور ڈاکٹر سرفراز خالد نے اپنے اشعار پیش کیے۔ پروفیسر مہتاب حیدر نقوی نے علی گڑھ کی شعری روایت سے متعلق اپنی ایک نظم کے چند اشعار سنائے۔ اس موقع پر طلبا نے سوالات بھی کیے اور معلوم کیا کہ ان کے تخلیقی سروکار کیا ہیں۔انھوں نے لہجے، اسلوب، آہنگ اور مخصوص استعارات و تشبیہات سے متعلق سوالات کیے۔
پروفیسر مہتاب حیدر نقوی نے طلبا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ شاعری وہ نہیں جو مشاعرے میں سنتے ہیں بلکہ شاعری وہ ہے جو کتاب میں پڑھتے ہیں، ہر شخص کے سوچنے کا انداز الگ ہوتاہے، آپ نوجوان ہیں آپ ہم سے الگ سوچتے ہیں جیسے ہم عالم خورشید سے الگ سوچتے ہیں، اسی لیے دونوں کی شاعری الگ الگ ہے۔ شعر میں جب تک تہہ داری نہ ہو اس وقت تک کوئی شعر شعر نہیں ہوتا، اور ہمارے بزرگوں نے تو ہجویں بھی بڑی تہہ داری کے ساتھ لکھی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ہم کلاسیکی شاعری کی طرح شاعری کرنے لگے تو وہ ہماری شاعری نہیں ہوگی، جدید دور کے شعراء جو اشعار کہہ رہے ہیں اس میں تہہ داری تلاش کرنا قاری کا کام ہے اور ایسا نہیں ہے کہ آج کے اچھے شاعروں کے یہاں تہہ داری نہیں ہے، لیکن جس طرح اچھے کلاسیکی شاعروں کو پڑھتے ہیں اسی طرح جدید دور کے اچھے شاعروں کو پڑھنا چاہیے۔عالم خورشید نے کہا کہ جب کوئی واقعہ رونما ہوتاہے تو وہ لاشعور کا حصہ بن جاتاہے اور ایک دن ایسا آتاہے جب وہ تخلیقی وفور کے ساتھ شعر کی شکل میں نمودار ہوتاہے۔ انھوں نے تخلیقی عمل سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے اپنے استعارات و تشبیہات کے سلسلہ میں کہا کہ اس کی تفہیم کے لیے پوری غزل کی قرأت اس کی لفظیات اور تشبیہات و استعارات کے تناظر میں کرنا چاہیے، اسی سے وہ ماحول سامنے آتاہے جو شعر کے تخلیق کے پس منظر میں ہوتاہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت اور حالات لفظ، تشبیہات اور استعارات کو نئے معانی دیتے ہیں اس لیے اس کو کسی بھی صورت میں پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ پروفیسر مہتاب حیدر نقوی نے متعدد نظمیں اور غزلیں پیش کیں۔
پھول پھول ہی جو سینے پہ کھلایے ہویے ہیں
ان دنوں ہم نگہ یار میں آئے ہوئے ہیں
اسی امید پہ ہم بھی کہ بر آئے گی امید
علم رفعت انکار اٹھائے ہوئے ہیں
لفظ اس کے ہیں مگر ان میں روانی میری
قصہ گو کوئی سہی ہے تو کہانی میری
زخم بھرنے کے لیے داغ ہیں مٹنے کے لیے
نقش بر آب ہے ہر ایک نشانی میری
دھوپ میں ان ابگینوں کو لیے پھرتا ہوں میں
کوئہ سایہ ان خوابوں کی نگہبانی کرے
سید سراج الدین اجملی کے یہ اشعار بطور خاص پسند کیے گیے۔
آب پر رکھتاہے پہلے اپنا اورنگ شعور
پھر جاری بیان آتشیں کرتاہے
آنکھ اس پر مصر ہے جانے کیوں
کچھ پس آفتاب دیکھا جائے
غلغلہ آمد سحر کا ہے
میکدے کا حساب دیکھا جائے
عالم خورشید کی ایک غزل کی یہ اشعار حالات کے پس منظر میں بطور خاص پسند کیے گئے۔
خدا ہی جانے بنائیں گے کیا نئے معمار
زمیں بنائی نہیں، آسماں بنانے لگے
نہ گل کھلے نہ کہیں تتلیاں ہی اڑتی ہیں
یہ کیسے باغ میرے باغباں بنانے لگے
اپنی ذات سے آگے جانا ہے جس کو
اس کو برف سے پانی ہونا پڑتا ہے
معیدرشیدی
ہوا کو جسم خوشبو کو لبادہ کرلیا ہے
سفر صدیوں کا میں نے پا پیادہ کرلیا ہے
حقیقت میں مجھے تم کم بہت لگنے لگے ہو
تصور میں تمہیں اتنا زیادہ کرلیا ہے
ڈاکٹر سرفراز خالد
نظامت کے فرائض ڈاکٹر معید رشیدی نے انجام دئیے۔ اس موقع پر اساتذہ کے علاوہ کثیر تعداد میں ریسرچ اسکالر، ایم اے، اور بی اے کے طلبا و طالبات موجود رہے۔