لکھنؤ:قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن ٹانڈہ کے بانی و صدرانس مسرور انصاری کےتحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’عکس اورامکان ‘‘ کی رسم رونمائی ادبی نشیمن کے دفتر واقع الماس باغ ۔ہردوئی روڈ پر منعقد ہوئی۔ جس کی صدارت سینئر صحافی و افسانہ نگار احمد ابراہیم علوی ،مہمان خصوصی انس مسرور انصاری،مہمانان میں ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی اور ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی موجود تھے جبکہ نظامت کے فرائض ہر دو ناظم رضوان فاروقی اور ڈاکٹر اسرارالحق نے انجام دیئے۔
رضوان فاروقی کی تلاوت قرآن پاک کے اورخلیل اختر شبو کےنعت پاک کا نذرانہ پیش کرنے کے بعدٹانڈہ امبیڈکر نگر سے تشریف لائے انس مسرور انصاری کی کتاب ’’عکس اور امکان‘‘ کا اجراء احمد ابراہیم علوی اور ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی کے ہاتھوںعمل میں آیا ۔
پروگرام کی صدارت کر رہے احمد ابراہیم علوی نے انس مسرور انصاری کی ہمہ جہت خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ ایک شخص اکیلے کئی صنفوں پرقلم پیرا ہے،بہت سی قیمتی کتابیں اردو دنیا کو عطا کی ۔انس مسرور انصاری نے جو نظم پیش کی ہے وہ ایسی نظم ہے جس پر کہنے او ر لکھنے کے لیے بہت کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے ۔میں نے جب ان کی چالیسویںکتاب عکس اور امکان کا مطالعہ کیا تو مجھے احساس ہواانس صاحب کی تحریر میں روانی او ران کامطالعہ کافی وسیع ہے۔انھوں نے انس مسرور انصاری کی ادبی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ بڑے شہروں میں تو اس طرح کے کام کرنے کی آسانیاں ہیں لیکن ٹانڈہ جیسے علاقے میں رہ کر انس مسرور نے جو ادبی کام انجام دیئے ہیں وہ لائق تحسین ہیں انھوں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ انس صاحب کا قلم یوں ہی رواں دواں رہے گا۔
ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی نے اپنے تاثرات میںنہ صرف معلومات افزا اردو دنیا کی نامور ہستیوں کی یاد دلائی بلکہ یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کیا کہ ناقدین نئے لکھنے والوں پر بھی اپنی قلم چلانی چاہئے ۔یہ خوش آئند بات ہے کہ نثر لکھنے والے عنقا ضرور ہیں مگر جو لکھ رہے ہیں وہ سب اعتبار یت سے مملو ہیں۔انھوں نے انس مسرور انصاری کو مبارک با دپیش کرتے ہوئےکہا کہ ان کی علمی س ادبی سرگرمیوں اور مسلسل مطالعہ کا نتیجہ ہے ’عکس اور امکان۔‘
ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی نے کہا کہ میں ٹانڈہ کی تین ژخصیات نے بہت متاثر ہوں پہلی ژخصیت استاد محترم پروفیسر محمود الہٰی صاحب کی ،دوسری ژخصیت مفتی ولی اللہ صاحب اور تیسری ژخصیت انس مسرور انصاری کے ہے انھوں نے کہا کہ انس نسرور صاحب جہاں ایک اچھے شاعرو نعت گو ہیں اہیں انھوں نے تحقیق و تنقید ی مضامین کے ساتھ ساتھ بچوں کے بھی خیال رکھا اور فبچوں کے ادب پر بھی ان کی گراں قدر کام ہے۔عکس اور امکان میں شامل نعت کے موضوع پرمضمون کو انھوں نے حاصل کتاب قرار دیا اور کہامکہ اچھا ہوتا اگر عربی نعت گو شعراء کے کلام کے نمونے بھی اس میں شامل ہوتے۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر امین احسن نے انس مسرور انصاری کا تعار ف کراتے ہوئے کہا کہ انس صاحب ہمہ جہت و ہمہ رنگ موضوعات پر لکھنے والے کثیر التصانیف شاعر ،ادیب ،نقاد ،محقق و مورخ ہیں۔بچو کے لیئے بھی انھوں نے کئی اہم کتابیں اور نظمیں کہیں ۔ادب اظفال پر ان کی ایک درجن سے زائد کتابیں ہیں۔جبکہ محمد اشہر سوداگر،وصیل ٹانڈوی ،ڈاکٹر اسرار الحق قریشی اور رضوان فاروقی نے مقالہ پیش کیا ۔راسٹریہ سہارا کے نامہ نگار غفران نسیم نے انس مسرور اور ٹانڈہ کی ادبی سرگرمیوںپر روشنی ڈالتے ہوئے تحسین و آفرین کے کلمات پیش کئے۔
پروگرام میں ڈاکٹر اسرالحق قریشی نے افسانچہ ’’بریک‘‘ اور ڈاکٹر سلیم احمد نے ’’نوکری ‘‘ پیش کیا ۔پروگرام میں خلیل اختر ،معید رہبر،محسن عظیم ،عاشق رائے بریلوی ،جلال لکھنوی ،ضیاء کاملی ،قمر جیلانی نے اپنے کلام پیش کئے۔پروگرم کے کنونر و ادبی نشیمن کے مدیر ڈاکٹر سلیم احمد نے شکریہ ادا کیا۔