اسرائیلی وزیر سے ملاقات کا بھانڈہ پھوٹنے کے بعد ملک میں ہونے والے غیر معمولی احتجاج کا شاخسانہ
طرابلس:لیبیا اور اسرائیل کے وزراء خارجہ کی اٹلی میں ملاقات کی خبر افشاء ہونے کے بعد دونوں ممالک کی حکومتیں سیاسی اور سفارتی بحران کا شکار ہیں۔ لیبیا کی معطل وزیرخارجہ نجلاء المنقوش نےخبر کے افشاء کے بعد راہ فرار اختیار کی اور ترکیہ چلی گئی ہیں۔یہ اطلاع العربیہ کی جانب سے دی گئی ہے۔ خبروں کے مطابق لیبیا کی "قومی اتحاد” کی حکومت میں معطل وزیر خارجہ ’معیتیقہ‘ ایئرپورٹ سے نجی طیارے کے ذریعے ترکیہ فرار ہونے کے بعد استنبول پہنچ گئیں۔ ترک "اناطولیہ” ایجنسی نے پیر کے روز سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے کہا کہ "فلائٹ ٹریکنگ ڈیوائسز نے انٹرنل سکیورٹی ایجنسی کی مدد سے اتوار کی رات لیبیا سے روانہ ہونے کے بعد المنقوش کے طیارے کے استنبول ایئرپورٹ پر پہنچنے کی تصدیق کی۔”
لیبیا کی داخلی سلامتی ایجنسی نے المنقوش کے سفر کی اجازت دینے یا سہولت فراہم کرنے کے حوالے سے "غیر مصدقہ خبر” کی تردید کی۔ پتا چلا کہ وہ لیبیا کے معیتیقہ بین الاقوامی ہوائی اڈے سے ترکیہ روانہ ہوئیں۔ داخلی سلامتی ایجنسی نے اتوار کی رات دیر گئے ایک بیان میں واضح کیا کہ اس کی جانب سے وزیر خارجہ کو اس سفر میں معاونت نہیں دی گئی۔ایجنسی نے کہا، "وہ معمول کے مطابق، باقاعدہ، نجی، یا صدارتی ہال سے نہیں گزری تھیں۔”ایجنسی نے تصدیق کی کہ اس کے پاس ہوائی اڈے پر روانگی کے نگرانی کرنے والے کیمروں کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ وزیر پر عارضی سفری پابندی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ان کا نام اس وقت تک انتظار کی فہرستوں میں شامل تھا جب تک کہ وہ تحقیقات کی تعمیل نہیں کرتیں۔اس کے علاوہ انہوں نے ریاستی اداروں اور املاک کو سبوتاژ کرنے کے لیے افواہیں پھیلانے اور اکسانے کے خلاف انتباہ جاری کیا اور کہا کہ شر پسند عناصر کے خلاف قانونی اقدامات کیے جائیں گے۔
عبوری "قومی اتحاد” کی حکومت کے سربراہ، عبد الحمید الدبیبہ نے اتوار اوار پیر کی درمیانی شب کو فیصلہ کیا کہ المنقوش کو کام سے معطل کر دیا جائے اور اس کے خلاف تحقیقات شروع کی جائیں۔الدبیبہ نے نوجوانوں کے وزیر فتح اللہ عبداللطیف الزانی کو عارضی طور پر خارجہ امور اور بین الاقوامی تعاون کا قائم مقام وزیر مقرر کیا ہے۔المنقوش کی استنبول آمد کے بارے میں ترک حکومت یا ترک وزارت خارجہ کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، لیکن سفارتی ذرائع اور مبصرین کا خیال ہے کہ لیبیا میں عوامی غم وغصے کو دیکھ کر المنقوش نے کسی دوسرے ملک میں پناہ لینے کے لییے ترکیہ کا انتخاب کیا۔ انقرہ اور دبیبہ حکومت کے درمیان مضبوط روابط دبیبہ پر ترکیہ کے اثرو نفوذ اور المنقوش کو ترکیہ میں مکمل تحفظ کی امید انہیں استنبول کھنچ لائی ہے۔
المنقوش کو مغربی لیبیا کی عبوری حکومت کے سب سے موثر وزراء میں سے ایک سمجھا جاتا تھا، وہ اپنے عہدے کی وجہ سے اکثر ترکیہ آتی رہتی ہیں اور اس کی حکومت سے بھی رابطہ کرتی ہیں۔ ان کے سابق ترک وزیر خارجہ مولود جاووش اوگلو جو موجودہ ترک پارلیمنٹ کے اسپیکرہیں کے ساتھ بھی قریبی روابط رہے ہیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ منقوش کا ترکیہ کا انتخاب جو اسرائیل کے ساتھ ملاقاتوں اور بات چیت کی مخالفت نہیں کرتا انقرہ کے دبیبہ حکومت پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت پر ان کے اعتماد کی نشاندہی کرتا ہے تاکہ اس کے خلاف ردعمل کو کم کیا جا سکے۔قبل ازیں اطلاع میں بتایا گیا کہ لیبیا کی وزیر خارجہ نجلاء المنقوش کی پچھلے ہفتے روم میں اپنے اسرائیلی ہم منصب ایلی کوہن سے ہوئی ملاقات کی خبر نے ملک میں غم و غصے کی لہر کو بھڑکا دیا۔گذشتہ چند گھنٹوں کے میں کئی شہروں، خاص طور پر دارالحکومت طرابلس میں متعدد مظاہرے ہوئے۔مظاہرین نے وزیر کی مذمت کرتے ہوئے وزارت خارجہ کی عمارت کے سامنے مظاہرہ کیا۔تاہم، وزیر کے موجودہ ٹھکانے کے بارے میں ابہام نے گھیر لیا۔ افواہیں یہ ہیں کہ وہ ملک چھوڑ کر معیتیقہ ہوائی اڈے کے ذریعے ترکی چلی گئی ہیں۔اتوار کو یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس انکشاف کیا کہ اسرائیل اور لیبیا کے وزرائے خارجہ نے گذشتہ ہفتے دونوں ممالک کے درمیان اپنی نوعیت کے پہلے سفارتی اقدام میں ملاقات کی۔کوہن نے کہا، "میں نے سکریٹری آف سٹیٹ سے بات کی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی صلاحیت کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔”داخلی سلامتی ایجنسی نے اتوار کی رات دیر گئے ایک بیان میں واضح کیا کہ اس کی جانب سے وزیر خارجہ کو اس سفر میں معاونت نہیں دی گئی۔ایجنسی نے کہا، "وہ معمول کے مطابق، باقاعدہ، نجی، یا صدارتی ہال سے نہیں گزری تھیں۔”
ایجنسی نے تصدیق کی کہ اس کے پاس ہوائی اڈے پر روانگی کے نگرانی کرنے والے کیمروں کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ وزیر پر عارضی سفری پابندی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ان کا نام اس وقت تک انتظار کی فہرستوں میں شامل تھا جب تک کہ وہ تحقیقات کی تعمیل نہیں کرتیں۔اس کے علاوہ، انہوں نے ریاستی اداروں اور املاک کو سبوتاژ کرنے کے لیے افواہیں پھیلانے اور اکسانے کے خلاف انتباہ جاری کیا، اور کہا کہ شر پسند عناصر کے خلاف قانونی اقدامات کیے جائیں گے۔
دارالحکومت طرابلس میں مظاہرین نے وزارت خارجہ کی عمارت پر دھاوا بول دیا، سڑکوں پر آگ لگا دی اور وزیر اعظم کی عمارت کے سامنے حکومت کا تختہ الٹنے کا مطالبہ کیا۔ان میں سے کچھ وزیر اعظم عبدالحمید الدبیبہ کے گھر کے سامنے جمع ہوئے۔ اگرچہ وزیر اعظم الدبیبہ نے اعلان کیا تھا کہ وزیر خارجہ کو معطل کر دیا گیا ہے اور وزیر قانون، وزیر لوکل گورنمنٹ، اور کابینہکے ایک رکن پر مشتمل کمیٹی کے ذریعے تحقیقات جاری ہیں۔صدارتی کونسل نے بھی حکومت سے اس ملاقات کے بارے میں وضاحت دینے کا مطالبہ کیا۔وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی کہ یہ ملاقات عارضی اور غیر سرکاری تھی، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کے امکان کو مسترد کرتی ہے۔بیان میں کہا گیا کہ ملاقات کی پہلے سے تیاری نہیں کی گئی تھی ۔لیبیا کی پارلیمنٹ نے ہونے والی تازہ ترین پیشرفت پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے آج پیر کو ایک ہنگامی اجلاس بلایا ہے۔ریاست کی سپریم کونسل نے اس فعل کو انجام دینے والے یا اس میں حصہ لینے والے پر اخلاقی، قانونی اور تاریخی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے اجلاس میں اپنی حیرت کا اظہار کیا اور ساتھ ہی متعلقہ افراد سے جوابدہی کا مطالبہ کیا۔قابل ذکر ہے کہ شمالی افریقہ کے دیگر ممالک کی طرح لیبیا میں بھی یہودیوں کا بھرپور ورثہ ہے۔لیکن کرنل معمر قذافی کی کئی دہائیوں پر محیط حکمرانی کے دوران ہزاروں یہودیوں کو ملک سے بے دخل کر دیا گیا اور کئی عبادت گاہوں کو تباہ کر دیا گیا۔لیبیا 2011 میں قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے انتشار کا شکار ہے۔جب کہ اس وقت ملک پر دو مسابقتی حکومتیں قائم ہیں، ایک مغرب میں الدبیبہ کی سربراہی میں، اور دوسری مشرق میں اسامہ حماد کی سربراہی میں، جسے پارلیمنٹ اور فوج کے کمانڈر خلیفہ حفتر کی حمایت حاصل ہے۔