برجستہ …………شاہدالاسلام
مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے انتخابی نتائج آگئے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی واضح ہو گیا کہ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے مہاراشٹر میں اپنی سیاسی حیثیت کا لوہا منوا لیا لیکن جھارکھنڈمیں اس کا سیاسی جادو نہ چل سکا۔288 نشستوں والی اسمبلی میں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو غیر معمولی کامیابی ملی ہے جو اس سچائی کا اظہار ہی ہے کہ حزب مخالف کی جماعتیں خواہ کچھ بھی کہیں،عوام کے درمیان بی جے پی اور اس کی شریک جماعتوں کا اعتماد پوری طرح بحال و برقرار ہے۔حالانکہ جھارکھنڈ کے انتخابی نتائج سے اسی سچائی کی نفی ہو جاتی ہے، جہاں جھارکھنڈ مکتی مورچہ کی قیادت والے سیاسی اتحاد نے اقتدار میں واپسی کے ذریعہ یہ باور کرادیا ہے کہ بی جے پی کے سیاسی پروپیگنڈے کا ذرا بھی یہاں اثر نہیں ہوا اور جھارکھنڈ کے عوام نے شیبو سرین کے لخت جگر پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے انہیں دوبارہ اقتدار میں واپسی کا موقع عنایت کیا۔ایسے میں یہ سوال فطری ہے کہ مہاراشٹر میں بی جے پی اور اس کی ہم خیال جماعتوں کو امیدوں سے زیادہ بڑی کامیابی کیسے ملی اور جھارکھنڈ میں اندازوں سے کہیں زیادہ بڑی ناکامیوں سے اسے کیوں دو چار ہونا پڑا؟اس بنیادی سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ہی ریاستوں کے سیاسی حالات کو سمجھنے کی تھوڑی کوشش کی جائے، تبھی یہ سمجھنا آسان ہو سکے گا کہ آخر کیوں مہاراشٹر میں بی جے پی اور اس کی ساتھی جماعتوں کو شاندار کامیابی ملی اور جھارکھنڈ میں اسے رسوائی کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟
دراصل واقعہ یہ ہے کہ مہاراشٹر میں ایکناتھ شنڈے کی قیادت والا سیاسی اتحاد تبدیل شدہ سیاسی منظر نامہ میں اپنی جگہ بنانے میں اس وجہ سے بھی کامیاب رہا کیونکہ ریاست میں اس سیاسی قبیلے سے مقابلہ کیلئے’انڈیا اتحاد‘ میں شامل جماعتوں کے قائدین کو جیسی تیاری کرنی تھی،انہوں نے نہیں کی تھی جبکہ اس کے برخلاف بی جے پی اور اس کے سیاسی اتحاد نے یہاں کے بدلے ہوئے سیاسی ماحول میں کیسے کامیابی حاصل کی جائے،اسی نکتے پر زیادہ توجہ دینے کی کوشش کی۔اسی کے ساتھ ہی ایکناتھ شنڈے کی قیادت والی ریاستی حکومت نے اپنے دورِ اقتدار کے آخری ایام میں عوام کو متوجہ کرنے والے کئی ایسے فیصلے لیے، جن کا اثر رائے عامہ پر دیکھنے کو ملا جو یہاں کے برسراقتدارطبقہ کے حق میں مفید ثابت ہوا۔یہی نہیں بلکہ کانگریس شرد پوار کی قیادت والی جماعت این سی پی اور ادھو ٹھاکرے کی سربراہی والی جماعت شیو سینا کے ساتھ درست طریقے سے تال میل بٹھانے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی اورمحض انتخابی سمجھو تو ں کی بنیاد پر ان تینوں متذکرہ جماعتوں نے مشترکہ طور پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ لے لیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ سیکولر کہلانے والی ان تینوں جماعتوں کے درمیان ذہنی ہم آہنگی کا خاصا فقدان دیکھنے کو ملا جبکہ اس کے برخلاف اس کی مقابل جماعتیں متحد اور منظم ہو کر میدان الیکشن میں سرگرداں رہیں۔اس صورتحال کا بی جے پی اور اس کی ہم خیال جماعتوں کو خاطر خواہ فائدہ ملا اور نتیجے کے طور پر ایکناتھ شنڈے کی قیادت والے سیاسی اتحاد کو فتح کا پرچم لہرانے کا موقع مل گیا۔
این سی پی کا وہ دھڑا جو شرد پوار کے ساتھ تھا اور جس کا ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی جماعت شیو سینا وکانگریس کے ساتھ انتخابی سمجھوتہ تھا،اسے اس الیکشن میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔عام طور پر شرد پوار کو مہاراشٹر کی سیاست کا بڑا کھلاڑی تصور کیا جاتا رہا تھا۔یہ تاثر دینے کی مختلف گوشوں سے کوشش ہوتی رہی تھی کہ این سی پی کی تقسیم کے باوجود شرد پوار مہاراشٹر کے ایک بڑے سیاسی کھلاڑی کے طور پر اس الیکشن میں اپنے وجود کا احساس دلا سکتے ہیں لیکن مہاراشٹر کے انتخابی نتائج سے اس خیال کی بھی 100 فیصد نفی ہو گئی اور یہ ثابت ہو گیا کہ سیاست میں کوئی بھی مستقل کھلاڑی قرار نہیں پا سکتا۔این سی پی اور شیو سینا کی جب الگ الگ موقوں پر تقسیم کا عمل دیکھنے کو ملا تھا، تب یہ بات بڑے زور و شور کے ساتھ کہی جا رہی تھی کہ وقتی طور پر بی جے پی نے سیاسی چالبازیوں کا مظاہرہ کیا ہے اور جب مہاراشٹر میں الیکشن کا موقع آئے گا تو بی جے پی کی یہ چال بازی کام نہیں آئے گی مگر اس الیکشن کے نتائج سے یہ بات بھی صد فیصد غلط ثابت ہوئی اور مہاراشٹر کا تازہ منظر نامہ اس حقیقت کو بھی جھٹلا رہا ہے کہ بی جے پی نے ریاست میں پچھلے دنوں جو سیاسی کھیل کھیلا تھا،اس کااثر عارضی ثابت ہوسکتاہے۔اگر ایسا ہوتا تو انتخابی نتائج اس کے عین برعکس ہوتے اور بطور خاص این سی پی کے شرد گروپ اور شیو سینا کے ادھو ٹھاکرے گروپ کو جیت کا موقع حاصل ہوتاجبکہ انتخابی نتائج اس کے پوری طرح خلاف آئے۔
مہاراشٹر کے انتخابی نتائج سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ عوامی سطح پر میڈیا کے ایک گوشے میں جو یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا تھا کہ پارلیمانی الیکشن کے بعد بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی کمر ٹوٹ سکتی ہے،یہ خیال بھی باطل قرار پا گیا۔دراصل پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی کے ساتھ ساتھ ایک ناتھ شنڈے کی سربراہی والی شیو سینا اور اجیت پور کی قیادت والی این سی پی کو امیدوں کے مطابق کامیابی نہیں ملی تھی۔
یاد رہے کہ پارلیمانی الیکشن میں مہاراشٹر کی 48 نشستوں میں سے 30 نشستوں پر کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتوں یعنی ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیو سینا اور شرد پوار کی لیڈرشپ والی این سی پی کے اتحاد کو کامیابی ملی تھی۔اس کے برخلاف بی جے پی کی قیادت والا این ڈی اے کا کنبہ 18 سیٹوں پر سمٹ گیا تھا۔تقریباً پانچ ماہ بعد سیاسی حالات یہاں اس طرح کروٹ لے لیں گے،اس کا اندازہ بہتوں کو نہیں تھا۔پہلی نظر میں مہاراشٹر کے انتخابی نتائج کو دیکھنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ صرف بی جے پی نے ہی امیدوں سے زیادہ بڑی کامیابی یہاں درج کرائی بلکہ اس کی ہم خیال جماعتوں کو بھی توقعات سے زیادہ نشستیں ملیں۔بی جے پی نے یہاں اکیلے 132 نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ اس کی اتحادی جماعت شیو سینا سنڈے گروپ کو 57 نشستوں پر فتحیابی حاصل ہوئی ہے۔اجیت پوار کی قیادت والی این سی پی جو بی جے پی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑ رہی تھی، اس نے 41 نشستوں پر قبضہ جمایا ہے۔مجموعی طور پر بی جے پی کے اتحاد نے 230 نشستوں پرکامیابی درج کرائی ہے جو یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ مہاراشٹر میں فی الحال اپوزیشن کا صفایہ ہو گیا ہے۔یہاں کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتیں مجموعی لحاظ سے 50 کا نشانہ بھی عبور کرنے میں ناکام رہیں۔اکیلے کانگریس صرف 16 نشستوں پر سمٹ گئی جبکہ ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیو سیناکا کنبہ 20 نشستوں پر سمٹ گیا۔ سب سے زیادہ خراب حالت این سی پی کے اس دھڑے کی رہی جس کی سربراہی یا سرپرستی شرد پوار انجام دے رہے تھے۔ اس جماعت کو مقننہ میں صرف 10 سیٹیں حاصل ہو سکیں۔
دراصل پارلیمانی الیکشن کے نتائج کی آمد کے بعد سے ہی یہ قیاس آرائی کی جانے لگی تھی کہ مہاراشٹر میں اسمبلی الیکشن کے دوران سیاست بڑے پیمانے پر انگڑائی لے سکتی ہے۔حالانکہ اس قسم کی قیاس آرائیوں کو ہوا دینے والے لوگ اسمبلی انتخابات کے سیاسی مدعوں اور پارلیمانی الیکشن کے سیاسی مدعو ں کے فرق کو سمجھنے سے قاصر تھے۔یہی وجہ ہے کہ یکطرفہ طور پر یہ سمجھ لیا گیا کہ جو صورتحال پارلیمانی الیکشن میں دیکھی گئی تھی،تھوڑے بہت فرق کے ساتھ وہی صورتحال اسمبلی انتخابات میں بھی دیکھنے کو ملے گی۔حالانکہ ایک محدود نظریہ یہ بھی تھا کہ مہاراشٹر میں منتشر اپوزیشن اسمبلی الیکشن میں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں بھی کر سکتا ہے۔
یہ خیال پیش کرنے والے لوگ چونکہ زمینی حقائق سے پوری طرح واقف تھے، اس لیے انہوں نے سوچی سمجھی رائے دی تھی اور یہ اشارہ واضح طور پر کیا تھاکہ مہا وکاس اگھاڑی کی شکل میں جو سیکولر اتحاد مہاراشٹر کے انتخابی منظر نامہ میں اپنی جگہ تلاش کر رہا ہے، اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں ملے گی۔
حالانکہ بی جے پی نے اس الیکشن کے دوران’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ کے نعرے کو خوب خوب اچھالا جبکہ اس کے ساتھ ہی وزیراعظم کا نعرہ بھی سیاسی فضا میں گردش کرتا نظر آیا کہ’ایک رہیں گے تو سیف رہیں گے‘۔ان نعروں کی گونج کے درمیان انتخابی مہم جیسے جیسے آگے بڑھتی رہی،بعض علاقائی مسائل بھی انتخابی موضوعات کی فہرست میں اضافہ کرتے رہے لیکن عملاًجو صورتحال سامنے آئی وہ یہی کہ سیکولر اتحاد اپنے انتشار اور بی جے پی کی محض مخالفت کے دَم پر الیکشن میں جیت درج کرانے کا خواب دیکھتا رہا اورمتبادل حکمرانی کاکوئی پرکشش سیاسی ماڈیول پیش کرنے سے قاصر بھی رہا جس کا خمیازہ اسے اس الیکشن میں بھگتنا پڑا۔نوٹ کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ انتخابی مہم کے دوران شرد پوار کی ٹیم اپنی پارٹی کی تقسیم کا رونا روتی رہی،ادھو ٹھاکرے اپنی جماعت شیو سینا کی تقسیم کا گریہ کرتے رہے اور کانگریس پارٹی مودی- اڈانی گٹھ جوڑ کا ایشو اٹھاتے ہوئے ماحول سازی میں مصروف رہی،اس کے برعکس بی جے پی نے اس الیکشن میں فتح کا پرچم لہرانے کیلئے جو جو وسائل بروئے کار لائے جا سکتے تھے،ان کا استعمال اس نے نہایت چالاکی کے ساتھ کیا۔شدت پسندی کو بھی بڑھاوا دینے کی کوشش ہوئی،نعروں کے سہارے سیاسی گاڑی کو آگے بڑھانے کی سعی بھی کی گئی اور ساتھ ہی ساتھ وزیراعظم نریندر مودی کے خوش نما نعرے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ گردان بھی کی گئی اورساتھ ہی ساتھ ترقیاتی کامیوں کا ڈھول بھی پیٹا کیا۔مجموعی طور پر یہی صورتحال بی جے پی کے لیے فتح عظیم کا تحفہ لے کر ائی۔
مہاراشٹر میں بھگوا پرچم لہرانے والی بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو امیدوں سے کہیں زیادہ بڑی کامیابی ضرور ملی لیکن اس کے بر خلاف جھارکھنڈ میں اس پارٹی کا جادو کیوں نہیں چل سکا،یہ سب سے بڑا سوال ہے؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے والے بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ الیکشن میں حکومتی مشنری کا کہیں نہ کہیں بی جے پی استعمال کرتی رہی ہے۔جھارکھنڈ میں چونکہ بی جے پی کی حکومت نہیں تھی،اس لیے حکومتی مشنری سے جو مدد اسے مل سکتی تھی، وہ نہیں ملی اور اسی کے ساتھ ساتھ جھارکھنڈ کے رائے دہندگان نے جھارکھنڈ مکتی مورچہ پر اس وجہ سے بھی بڑا اعتماد کیا کیونکہ انہوں نے یہ محسوس کیا کہ حالیہ برسوں میں جے ایم ایم اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت عوام کی امیدوں اور آرزوؤں کی تکمیل کی جانب قدم بڑھانے کے معاملے میں شاید ایماندار ہے۔جھارکھنڈ ان ریاستوں میں سے ایک ہے، جہاں ماضی میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال دیکھنے کو ملتی رہی تھی۔ماضی کے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے شاید لوگوں نے ہیمنت سورین کی حکمرانی کے مزاج و انداز اور طریقہئ حکمرانی کو سمجھنے کی شعوری کوشش کی اور نتیجتاً ریاست کے رائے دہندگان نے جے ایم ایم،کانگریس اور آر جے ڈی پر مشتمل سیاسی اتحادکی جھولی کو اپنے ووٹوں سے بھر دیا۔یہی وجہ ہے کہ جھارکھنڈ مکتی مورچہ کو34سیٹوں پر فتحیابی ملی ہے،جبکہ اس کی اتحادی جماعت کانگریس یہاں 16سیٹوں پر کامیاب ہوئی۔یہی نہیں بلکہ آرجے ڈی کوبھی یہاں 4نشستوں پرجیت کا موقع حاصل ہوگیا۔اس کے برخلاف بی جے پی کا سیاسی کنبہ یہاں مجموعی طورپر21نشستوں پر سمٹ گیا۔دونوں صوبوں کے نتائج سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ الگ الگ ریاستوں میں الگ الگ صورتحال تھی،جس کاواضح اثر انتخابی نتائج پردیکھاگیا۔