بتیا(پریس ریلیز)آل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب صدر مولانا انیس الرحمن قاسمی نے اپنے اخباری بیان میں کہا کہ گزشتہ چند مہینوں سے ملک کے پورب اتر کی ریاست منی پور میں فیک ویڈیو اور اشتعال انگیز تقریر کے ذریعے نفرت پھیلا کرتشدد کو بھڑکایا گیا اور وہی طریقہ گزشتہ ماہ کے آخری ہفتہ اور اس ماہ کے پہلے ہفتہ میں ہریانہ کے علاقہ میں اپناگیا،دونوں جگہ اشتعال انگیز تقریر اورجھوٹے ویڈیو کے ذریعے حالات کو خراب کیا گیا اوردونوں جگہ بڑے پیمانے پرجان ومال کا نقصان ہوا، منی پورکے اندر اپریل کے بعد سے ہی اکثریتی گروہ کے لوگوں کے ذریعہ وہاں کی اقلیتی وقبائلی آبادی کو مسلسل نسلی بنیادوں پر ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ان کی جائیداد یں لوٹی جارہی ہیں،چرچوں کو اور اس کی درودیوار کو نیست ونابود کرتے ہوئے،جس طرح حملے کیے گئے، اس کے نتیجے میں سوسے زائد لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔متاثرین اپنے گھروں سے بیگانہ ریلیف کیمپوں میں اپنی جانوں کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ نوح کے علاقے میں بھی کئی جانیں گئیں،بالخصوص مولانا سعدصاحب کو مسجد میں بے دردی سے شہید کیا گیا اور سرکاری طورپوریک طرفہ ظالمانہ کارروئی کرتے ہوئے مسلمانوں کے سینکڑوں مکانات اوردکانوں کو توڑ دیاگیا اوربے قصورلوگوں کی گرفتاریاں ہوئیں، جب تک سرکاری کی نیت درست نہیں ہوگی اور بے قصوروں کے بجائے قصوروارکو گرفتار نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک حالات نورمل نہیں ہوں گے، مولانا قاسمی نے مرکزی اور سرکاری ریاستوں سے مطالبہ کیاہے کہ ٹرین میں یا آبادیوں میں جن لوگوں کا قتل ہوا ہے،یا جن کااملاک لوٹا اور جلایا گیا ہے،ان کا جلد معاوضہ سرکار ادا کرے۔
مولاناقاسمی نے یہ بھی کہا کہ دونوں جگہوں کے سماجی حالات اشتعال انگیزیرتقریرکے ذریعہ اتنے خراب کردیے گیے تھے کہ ہریانہ کی تین اضلاع میں پچاس پنچایتوں کے ذریعہ مسلمانوں کے معاشی اورسماجی بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے وہاں کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اوربگڑنے والی تھی کہ اسی درمیان ڈپٹی کمشنر کی طرف سے سماجی تانے بانے کو توڑنے والے اس طرح کے پنچایتوں کو نوٹس دی گئی اور ان پنچایتوں نے اپنے فیصلے کی واپسی کا اعلان کرنا شروع کردیاہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ہم تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔
مولانا انیس الرحمن قاسمی نے کہا کہ یہ خوش آئین بات ہے کہ کھاب پنچایتوں کے ذمہ داروں نے بائیکاٹ سے متعلق اپنے فیصلے واپس لینے شروع کردیے ہیں۔ انہوں اس پر بھی خوشی کا اظہار کیا ہے کہ گزشتہ کل وہاں کے کسان تنظیموں اور کھاب پنچایتوں کے رہنماؤں نے حصار میں ایک پنچایت منعقد کر کے یہ کہا کہ نوح میں امن امان کوخراب کرنے اور کسی بھی قسم کی ذات پات اور فرقہ وارانہ تشدد میں حصہ لینے والوں کا مقابلہ کریں۔
مولاناقاسمی نے کل کے سپریم کورٹ کے بیان پر خوشی کا اظہاکرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ اشتعال انگیزتقریر کے بارے میں نوح فساد کے دوران وہاں مسلمانوں کے بائیکاٹ کے خلاف سپریم کورٹ نے کہا کہ نفرت انگیز جرم اور نفرت انگیز تقریر مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔ ایسا میکنزم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ ہمیں اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ نے ایسے واقعات کو روکنے کے لیے مرکز سے تجویز طلب کی۔ فی الحال سپریم کورٹ نے ریلیوں وغیرہ پر پابندی کا حکم دینے سے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں سے کہا ہے کہ وہ تحسین پونا والا کے فیصلے کے مطابق اپنے پاس دستیاب نفرت انگیز تقریر کا مواد نوڈل افسر کو دیں۔ نوڈل آفیسر کمیٹی کو اس طرح کی شکایات کے ازالے کے لیے وقتاً فوقتاً ملاقات کرنی چاہیے۔
جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا کہ ہم ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) سے ایک کمیٹی تشکیل دینے کو کہیں گے جو مختلف علاقوں کے ایس ایچ اوز سے نفرت انگیز تقاریر کی شکایات کا جائزہ لے گی، ان کے مواد کی جانچ کرے گی اور متعلقہ پولیس افسران کو اس بارے میں مطلع کرے گی۔
مولانا قاسمی نے ملک کے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس طرح کے واقعات کا سماجی اور قانونی طورپر حل ڈھونڈیں،مظلومین کی مدد کریں اور ظالموں کو کیفر کردارتک پہنچانے کی پوری کوشش کریں،حالات کو نورمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اشتعال انگیز تقریروں اور جھوٹے ویڈیو انوڈل آفیسر اور دیگر حکام تک پہنچائیں اور اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کریں،انہوں نے یہ بھی کہا کہ سماجی طورپر فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان رابطہ کوتیز کریں۔مذہبی رہنماؤں،سیاسی افراداورعدالتی شخصیات سے ملاقات کریں سیمینار اور سمپوزیم میں ان کو بلائیں،سماج سے ڈر اور خوف کو ختم کریں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومتی اداروں اور آزاد تنظیموں سے رابطہ کریں۔