اے ایم یو میں تقریر کے دوران ڈاکٹر شوقی ابراہیم عبدالکریم علام کا اسلام کی اصل روح کو سمجھنے پر زور
علی گڑھ، : ’’اسلام کی اصل روح کو سمجھنے اور اپنانے کی ضرورت ہے جو دراصل مشترکہ باتوں پر زور دے کر اور تنوع و تکثیریت کو تسلیم کرکے تمام مذاہب، تہذیبوں اور فلسفوں کے لوگوں کے ساتھ گفت و شنید اور رابطے استوار کرنے کا نام ہے۔ تنوع اور تکثیریت خدا کا تحفہ اور ایک نعمت ہے‘‘۔ ان خیالات کا اظہار عرب جمہوریہ مصر کے مفتی اعظم ڈاکٹر شوقی ابراہیم عبدالکریم علام نے آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے کینیڈی آڈیٹوریم میں طلباء، اساتذہ اور دیگر معززین کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
’تہذیبوں کے درمیان مکالمہ‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شوقی نے کہا ’’رابطے استوار کرنا اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ مکالمہ و معاملات کرنا پیغمبر اسلامؐ کا معمول رہا ہے ۔ پیغمبر اسلام ؐنے اپنے صحابیوں کو حبشہ بھیجا جہاں بنیادی طور پر عیسائی حکومت اور عیسائی آبادی تھی۔ اسی طرح مدینہ میں انھوں نے ایک معاہدہ کیا جسے ـ’میثاق مدینہ‘ کہا جاتا ہے جس میں انھوں نے یہودی قبیلوں اور دیگر باشندوں کے ساتھ تعلقات کے اصول و ضابطے طے کیے ‘‘۔قرآن کریم کی آیات کے حوالے دیتے ہوئے مصر کے مفتی اعظم نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمت و شفقت اور ہمدردی کا مظہر تھے اور آپ پڑوسیوں، دوستوں، رشتہ داروں اور وسیع پیمانے پر انسانیت کے ساتھ اپنے طرز عمل اور برتاؤ کے حوالے سے مسلمانوں کے لیے ایک نمونہ ہیں۔
مسلمانوں کو ’اسلام کی غلط تشریح ‘ کے خلاف خبردار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم ان لوگوں سے اسلام کو چھینیں جو اس کی غلط تشریح کرتے ہیں اور ہم پوری دنیا میں امن کے پیغامبر اور سفیر بنیں۔ڈاکٹر شوقی ابراہیم عبدالکریم علام نے اے ایم یو میں مدعو کیے جانے پر شکریہ ادا کیا اور کہا’’اس عظیم ادارے کو سرسید احمد خاں نے قائم کیا تھا جو بصیرت کے حامل تھے، یہ ادارہ تاریخی ہے اور اسے قیام امن کے اقدامات میں اپنا اہم کردار ادا کرنا ہے‘‘۔
اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے اپنا صدارتی کلمات میں کہا کہ تہذیبوں اور مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ جڑنا ہی انسانیت کے پرامن وجود اور ترقی کے لیے واحد راستہ ہے۔ انھوں نے کہا’’تہذیبوں کے درمیان تصادم کا نظریہ عالمی جنگ کے بعد ہٹنگٹن نے پیش کیا تھا،جو ایک خطرناک فلسفہ تھا۔ اس کے بجائے، تہذیبوں، ثقافتوں اور مذاہب کے درمیان خلیج کو پُر کرنا اور بین المذاہب مکالمہ ہی لوگوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کا واحد راستہ ہے‘‘۔انہوں نے مختلف عالمی فورمس پر امن کے پیغام کو پھیلانے کے لیے مفتی اعظم کی تعریف کی جس میں نئی دہلی میں عالمی صوفی کانفرنس (2016) اور ڈاووس میں ورلڈ اکنامک فورم (2016) وغیرہ شامل ہیں۔قبل ازیں اے ایم یو کے رجسٹرار جناب محمد عمران آئی پی ایس نے معزز مہمان کا تعارف کرایا اور اے ایم یو کی جانب سے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے اے ایم یو کے دارا شکوہ مرکز برائے بین المذاہب مفاہمت و ڈائیلاگ کاذکر کیا اور ہندوستان اور مصر کے درمیان مشترکہ تعلقات پر بھی مختصراً روشنی ڈالی۔ وائس چانسلر نے مفتی اعظم کو ایک یادگاری نشان، کافی ٹیبل بُک جہان سید اور ایک دیگر کتاب ’اے ہسٹری آف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 1920-2020‘ پیش کی۔ مفتی اعظم نے بھی وائس چانسلر کواپنی طرف سے ایک تحفہ پیش کیا۔
آخر میں پروفیسر عبدالعلیم، ڈین، اسٹوڈنٹس ویلفیئر، اے ایم یو نے شکریہ کے کلمات ادا کئے۔پروگرام میں انگریزی تقاریر کا عربی میں ترجمہ پروفیسر محمد ثناء اللہ، صدر شعبہ عربی، اے ایم یو نے کیا جبکہ مفتی اعظم کی عربی تقریر کا انگریزی میں ترجمہ ان کے مشیر ڈاکٹر ابراہیم نیگم نے کیا۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر شارق عاقل نے کی۔ پروگرام کے بعد مفتی اعظم ڈاکٹر شوقی ابراہیم عبدالکریم علام نے یونیورسٹی کی جامع مسجد اور یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کے مزار پر حاضری دی۔ پروگرام کا اختتام یونیورسٹی ترانہ کے بعد قومی ترانہ کے ساتھ ہوا۔ مفتی اعظم مصر کا اے ایم یو کا یک روزہ دورہ ہندوستان کے ان کے سرکاری دورے کا ایک حصہ تھا جس کی میزبانی انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز، وزارت خارجہ، حکومت ہند کررہی ہے۔