ڈھاکہ، 29جولائی (یو این آئی) بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزماں خان کمال نے "عوامی کوٹے” کے احتجاج میں 147 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی تصدیق کی ہے جب کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 200 سے تجاوز کر گئی ہے ۔وزیر داخلہ کمال نے دارالحکومت ڈھاکہ میں صحافیوں کو 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں کے خاندانوں کے لیے "عوامی کوٹہ” مختص کیے جانے کے بعد شروع ہونے والے احتجاج کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا ہے۔
انہوں نے احتجاج شروع ہونے کے بعد سے اب تک 147 افراد ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔انہوں نے کہا کہ مرنے والوں میں طلباء، پولیس افسران، کارکنان اور مختلف پیشہ ور گروپوں کے لوگ شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ ہلاکتوں کی کل تعداد کے تعین کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔مقامی اور بین الاقوامی پریس میں آنے والی خبروں کے مطابق مظاہروں میں جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد 200 سے زائد ہے۔دوسری جانب بنگلہ دیش کے وزیر انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز جنید احمد پالک نے موبائل انٹرنیٹ سروس دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا۔
بنگلہ دیش میں 1971 کی جنگ آزادی میں خدمات انجام دینے والوں کے بچوں کے لیے سرکاری کوٹہ مختص کرنے کے فیصلے کے بعد مظاہرے شروع ہوئے۔
21 جولائی کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں کے خاندانوں کے لیے مختص کوٹہ کو 30 فیصد سے گھٹا کر 5 فیصد کر دیا جبکہ 2 فیصد نسلی اقلیتوں اور معذوروں کے لیے کوٹہ مختص کرنے اور 93 فیصد میرٹ کی بنیاد پر کیے جانے کا اعلان کیا ہے۔
وزیر انصاف انیس الحق نے کہا کہ مظاہروں کی وجہ سے لگایا گیا کرفیو بتدریج اٹھا لیا جائے گا کیونکہ کشیدگی میں کمی آئی اور پھر ملک میں کچھ کام کی جگہوں اور سرکاری اداروں نے محدود خدمات فراہم کرنا شروع کر دیا ہے۔حکومت نے مظاہروں کے دوران بڑھتے ہوئے تشدد کے باعث 17 جولائی کو موبائل انٹرنیٹ سروس بند کر دی تھی۔