شملہ، 19 نومبر (یو این آئی) ہماچل پردیش ہائی کورٹ نے سکھو حکومت کو منگل کو بڑا جھٹکا دیا۔ہائی کورٹ نے دہلی میں واقع ہماچل بھون کو قرق کرنے کا حکم دیا ہے۔یہ معاملہ ایک پاور کمپنی اور حکومت کے درمیان کا ہے۔ ہائی کورٹ نے آربٹریشن ایوارڈ کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے ہماچل بھون، 27-سکندرا روڈ، منڈی ہاؤس، نئی دہلی کو قرق کرنے کا حکم دیا ہے۔عدالت کے جسٹس اجے موہن گوئل نے سیلی ہائیڈرو الیکٹرک پاور کمپنی لمیٹڈ کی طرف سے محکمہ توانائی کے خلاف دائر تعمیل کی درخواست پر سماعت کے بعد یہ حکم دیا۔ عدالت نے ایم پی پی اور پاور ڈپارٹمنٹ کے پرنسپل سکریٹری کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ حقائق پر مبنی تحقیقات کریں کہ کس خاص افسر یا افسران کی غلطی کی وجہ سے 64 کروڑ روپے کی سات فیصد سود سمیت ایوارڈ رقم کورٹ میں جمع نہیں کی گئی ہے۔ عدالت نے کہا کہ مجرموں کا سراغ لگانا ضروری ہے کیونکہ سود کو قصوروار افسر افسران – ملازمین سے انفرادی طور پر وصول کرنے کا حکم دیا جائے گا۔
عدالت نے 15 دن میں تفتیش مکمل کرکے اگلی تاریخ پر تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا بھی حکم دیا۔ کیس کی اگلی سماعت 6 دسمبر کو ہوگی۔
اس فیصلے کے بعد ریاستی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ایک بار پھر حکومت پر حملہ آور ہو گئی ہے۔ قائد حزب اختلاف جئے رام ٹھاکر نے کہا کہ ہماچل کے وقار کی علامت کہا جانے والا ہماچل بھون آج قرق کرنے حکم آگیا ہے۔ ریاست کے لیے اس سے بڑی شرمناک بات کیا ہو سکتی ہے۔ ریاست کی عزت وزیر اعلیٰ اور ان کی حکومت نے برباد کر دیا ہے اور ہماچل آج نیلامی کی دہلیز پر کھڑا ہے۔
اس دوران بی جے پی کے ریاستی صدر ڈاکٹر راجیو بندل نے کہا کہ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ حکومت ہر جگہ ناکام ہو چکی ہے۔ وہ عدالت میں اپنا موقف پیش کرنے کے قابل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماچل بھون کو دہلی کو اٹیچ کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔احکامات کے بارے میں وزیر اعلیٰ سکھویندر سنگھ سکھو نے کہا کہ فی الحال انہوں نے احکامات نہیں پڑھے ہیں۔ حکومت ہائی کورٹ کے فیصلے کا مطالعہ کرے گی۔ 2006 کی انرجی پالیسی کے تحت اپ فرنٹ پریمیم کا فیصلہ کیا جاتاہے۔ آربٹیشن کا فیصلہ تشویشناک ہے، حکومت اس معاملے کا مطالعہ کر کے مزید فیصلہ کرے گی۔
قابل ذکر ہے کہ سال 2009 میں حکومت نے کمپنی کو 320 میگاواٹ کا پاور پروجیکٹ الاٹ کیا تھا۔ یہ پروجیکٹ لاہول اسپتی ضلع میں قائم کیا جانا تھا۔ اس وقت حکومت نے منصوبے کے قیام کے لیے سڑک کی تعمیر کا کام بی آر او کو دیا تھا۔ معاہدے کے مطابق حکومت نے کمپنی کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا تھیں، تاکہ کمپنی وقت پر منصوبے کا کام شروع کر سکے۔ کمپنی نے سال 2017 میں ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی۔