علی گڑھ،: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو) کے شعبہ دینیات سنّی کی جانب سے ’’بیسویں صدی کے برصغیر میں قرآنی خدمات‘‘ موضوع پر دو روزہ بین الاقومی سیمینار منعقد کیا گیا ۔یونیورسٹی پالی ٹیکنک کے اسمبلی ہال میں افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے شیخ الجامعہ پروفیسر طارق منصور نے کہاکہ کسی بھی چیز کو سمجھنے کیلئے اس کے پس منظر اور کہنے والے کی مراد سے واقف ہونا ضروری ہے، اس لیے قرآن کو سمجھنے کیلئے لازم ہے کہ اس کی تفاسیر اوراس سے متعلقہ علوم وفنون کو بھی سیکھا جائے اور تمام سائنسی ایجادات یا سائنس دانوں کے تمام اقوال کو قرآن پر منطبق کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ سائنس تغیر پذیر ہے جب کہ قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی یا حذف واضافہ ناممکن ہے۔ وائس چانسلر نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو یہ امتیازی مقام حاصل ہے کہ یہاں سائنس وجدید ٹکنالوجی کے ساتھ مشرقی علوم کے بھی شعبے ہیں جن میں سب سے قدیم دینیات فیکلٹی ہے اور اس فیکلٹی میں مذاہب وادیان کی بھی تعلیم دی جاتی ہے اس لیے ہمیں اس طرح کے پروگرام منعقد کرتے رہنا چاہیے جس سے ملک میں اتحاد واتفاق اور بھائی چارہ بڑھے۔
دینیات فیکلٹی کے ڈین پروفیسر توقیر عالم فلاحی نے افتتاحی خطاب میں کہاکہ قرآن کتاب ہدایت کے ساتھ کتاب انقلاب بھی ہے۔ اس کتاب مبین کی خدمات میں مسلم علماء واسکالرز کے علاوہ مستشرقین نے بھی اپنے لحاظ سے خدمات انجام دی ہیں۔ انھیںقرآنی خدمات کو بیان کرنے کے لئے یہ سیمینار منعقد کیا گیاہے۔
کلیدی خطاب میں پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے قرآن کریم کے ترجمہ وتفسیر کے تاریخی تسلسل کو بیان کرتے ہوئے ہندوستانی مفسرین ومترجمین کا اجمالی تعارف پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس تاریخی تسلسل میں اے ایم یو کے طلباء واساتذہ میں علامہ فراہی، احسان اللہ عباسی اور سید علی نقی نقوی کی خدمات قرآن غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں ۔
دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم اور پروگرام کے مہمان خصوصی مفتی محمد راشد اعظمی نے اپنے خطاب میںبیسویں صدی کے مترجمین قرآ ن اور مفسرین کی خدمات جلیلہ کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ الہند مولانا محمود حسن اورمولا نا اشرف علی تھانوی کے تراجم و تفاسیر کے امتیازات وخصوصیات کو بیان کیا۔ اسی طرح انھوں نے نظم قرآن میں علامہ حمید الدین فراہی ، مولانا اشرف علی تھانوی کی تفاسیر کی اولیت اور اور مفتی سعید احمدپالن پوری کے کارہائے نمایاں بھی بیان کئے۔
پروگرام کے مہمان اعزازی پروفیسر اقتدار محمد خاں، صدرشعبہ اسلامیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دین ودنیا کی کامیابی صرف اسی کتاب ہدایت سے مل سکتی ہے، آج کے دور میں ہم اتباع قرآن کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر اس کے احکام وہدایات کے مکمل پابند نہیں بنتے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن کو ماننے کے ساتھ ساتھ ہم قرآن کی بھی مانیں تاکہ اسکا پیغام عملی شکل میں عام ہو۔ مہمان اعزازی مولاناسید کلب جواد، جنرل سکریٹری مجلس علماء ہند نے کہا کہ قرآن نے اہل عرب کی حمیت وغیرت کو للکارتے ہوئے زبان دانی اور فصاحت وبلاغت میں قرآن کا مثل پیش کرنے کا چیلنج دیا اور یہ چیلنج تاقیامت رہے گا ۔ انھوں نے مزید کہا کہ قرآن امن کی کتاب ہے اسی لیے صلح حدیبیہ کو فتح مبین کے الفاظ میں بیان کیا گیا،کسی جنگ میں فتح کو قرآن نے فتح مبین نہیں کہا۔دوروزہ بین الاقوامی سیمینار کے ڈائریکٹر پروفیسر محمد حبیب اللہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی کے پیغام کا ذکر کیا، جس میں انھوں نے یونیورسٹی اور شعبہ کے ذمہ داران کو اس سیمینار کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی اور اس کو ایک مستحسن اقدام قراردیا۔ کنوینر سیمینارپروفیسر محمد سلیم قاسمی نے حاضرین اورتمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔نائب کنوینر پروفیسر محمد راشد نے سیمینار کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔ سیمینارمیں بنگلہ دیش، یمن اور لیبیا کے اسکالرز اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دیگر شعبوں کے صدور ، سینئر اساتذہ اور طلبہ وطالبات کافی تعداد میں شریک ہوئے۔ سیمینار کی کورآڈنیٹر ڈاکٹر شائستہ پروین ہیں۔