اسلام آباد:پاکستان کے سوات میں واقع ایک پولس اسٹیشن میں بھڑکنے والی آگ میں جھلس کردرجن بھر افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ آگ لگنے کے اس واقعہ میں 40 افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ تھانہ سی ٹی ڈی کبل میں 2 دھماکے ہوئے۔ڈی آئی جی خالد سہیل نے بتایا کہ تھانے میں اسلحہ اور مارٹر گولے بھی موجود تھے، ممکن ہے مارٹر گولے پھٹنے سے دھماکے ہوئے ہوں، یہ خودکش دھماکا بھی ہوسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تھانے کے گیٹ پر دھماکا نہیں ہوا، عموماً خود کش حملہ آور گیٹ پر ہی خود کو اڑا دیتا ہے۔ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے کہا کہ تھانے کی عمارت پرانی تھی، بیشتر دفاتر اور اہلکار نئی عمارت میں تھے۔ڈی آئی جی خالد سہیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ دھماکے سے تھانے کی عمارت بیٹھ گئی، پاکستانی اخبار روزنامہ جنگ کے مطابق دھماکے سے بجلی منقطع ہوگئی، نوعیت معلوم کی جارہی ہے۔
آئی جی خیبر پختونخوا پولیس اختر حیات گنڈاپور کا کہنا ہے کہ صوبے میں سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔محکمہ صحت خیبر پختونخوا نے سوات کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی۔اس حوالے سے محکمہ صحت کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق دھماکے سے متاثرہ افراد کو ہنگامی بنیادوں پر علاج فراہم کیا جائے۔ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ٓگ کیسے لگی؟حلانکہ سوات پولیس کا کہنا ہے کہ کبل کے سی ٹی ڈی تھانے میں ہونے والا دھماکہ دہشت گردی کی وجہ سے نہیں ہوا۔ ڈی آئی جی مالا کنڈ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سی ٹی ڈی کے پرانے آفس میں دھماکہ ہوا لیکن ہمیں فی الحال دہشت گردی کا عنصر نہیں ملا۔ ‘ان کا کہنا تھا کہ ’ایک پرانی کوت میں اسلحہ پڑا ہوا تھا، وہاں شاید بلاسٹنگ ہوئی۔‘ انھوں نے بتایا کہ اس دھماکے میں چار سولین بھی ہلاک ہوئے۔اس سے قبل ڈی پی او سوات کا کہنا تھا کہ کبل میں دھماکہ دہشت گردی نہیں بلکہ سی ٹی ڈی تھانہ میں موجود دھماکہ خیز مواد بجلی شارٹ سرکٹ کی وجہ سے پھٹا۔انھوں نے بتایا کہ بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق باہر سے کسی قسم کی دہشت گردی یا حملہ کے شواہد نہیں ملے۔ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی تھانہ کے تین منزلہ عمارت میں تقریباً پچاس اہلکار موجود تھے۔
ادھرسوات دھماکے پر ردعمل دیتے ہوئے سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما مراد سعید نے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ ’آج ایک بار پھر ہمیں بدامنی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور پولیس کے جوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ اس کے خلاف بدھ کو وہ کارکنان سمیت سڑکوں پر نکل کر احتجاجی مظاہرہ کریں گے۔ادھر صوبائی صدر اے این پی ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ سوات میں ایک بار پھر پولیس اور انسداد دہشتگردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے جوانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ایک بیان میں ان کا کہنا ہے کہ ’پختونخوا پولیس کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر کس نے چھوڑا؟ ہمیں یاد ہے کہ جب کہا گیا کہ دہشتگرد سوات میں کسی کی ‘شادی’ میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ یہ کس نے کہا تھا، کون ان دہشتگردوں کو واپس لایا اور انھیں کیا سزا دی گئی؟’پشاور پولیس لائنز حملہ کے بعد کیا اقدامات اٹھائے گئے؟ آج بھی ہم وہی مطالبہ دہراتے ہیں کہ ‘ری سیٹلمنٹ’ کے نام پر جنھوں نے پختونخوا میں دہشتگردوں کی آبادکاری کی، انھیں گرفتار کرکے سزا دی جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ وہ دہشتگرد کہاں کہاں موجود ہیں۔‘اے این پی سوات کے قائدین میدان میں ہیں اور خدائی خدمتگار آرگنائزیشن کے رضاکاروں کو بھی ہدایت کردی گئی ہے کہ وہ ہسپتال پہنچیں اور امدادی کارروائیوں میں بھرپور حصہ لیں۔